اگست کی آمد،اسمبلیاں تحلیل....الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے
اتحادیوں نے سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کا نعرہ لگایا،ازالہ کے بعد ہی الیکشن ممکن ہوں گے
اسلام آباد(تجزیہ:۔ صدیق فخر سے)اسمبلی کی تحلیل کا وقت ہوا چاہتا ہے....؟؟ اگست کے مہینے کے شروع ہوتے ہی اسمبلیوں کی تحلیل کی بازگشت ہر طرف گونج اٹھی۔پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اسمبلیاں توڑنے اور الیکشن کے نعرے گونجتے رہے ،پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا کہ اتحادیوں نے وفاق کا کنٹرول سنبھال کر اسے بچا لیا۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے امکانات روشن ہوئے لیکن پھر لڑکھڑاتی گاڑی کو صحیح راستے پر لے آیا گیا اورتوازن برقرار ہو گیا۔اسمبلیاں اپنی مدت تکمیل کے بعد تحلیل ہو جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن وقت پر ہوں گے؟۔ جس کا جواب مختلف حلقوں سے ”نہیں“ میں ہی ملا۔ الیکشن وقت پر نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ موجودہ اتحادی جماعتوں سیاست نہیں ریاست بچاﺅ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے جو قربانی دی ۔یہ ایک ایسی قربانی تھی جس میں ان کا نہ صرف ووٹ بنک کم ہوا بلکہ مہنگائی اور بحرانوں کا ذمہ دار بھی وہی ٹھہرائے گئے۔ اگر وقت پر الیکشن ہوتے ہیں تو موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اتحادی جماعتوں کے ووٹ بنک کی بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور اگر قابل لوگوں کی بجائے نااہل تجربہ کار کے ہاتھوں میں پھر حکومت دے دی جاتی ہے تو اس بار صورتحال زیادہ خطر ناک ہو سکتی ہے۔ اس لئے نگران حکومت کی باگ دوڑ ایک ایسے شخص کو سونپی جائے گی جس سے نہ صرف ملک صحیح سمت پر چلتا رہے گا بلکہ موجودہ اتحادی جماعتوں کے ووٹ بنک کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور جب تک موجودہ اتحادی جماعتوں نے جو سیاست کی قربانی دی اس کا ازالہ نہیں ہو جاتا تب تک الیکشن وقت پر ہونے کی امید نظر نہیں آتی ۔اسمبلیاں تحلیل ضرور ہوں گی لیکن شاید الیکشن وقت پر ممکن نہ ہو سکیں۔دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس کے قریب ترین سمجھے جانے والے افراد ہی اس کا ساتھ چھوڑ کر جا چکے ہیں اور پی ٹی آئی کا مرکزی رہنماﺅں ، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کے لحاظ سے تو اب مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ عمران خان کی مختلف کیسوں میں عدالتوں میں پیشی کے وقت بھی چند افراد کا ہی اکٹھ نظر آتا ہے ۔پی ٹی آئی کی طرف سے کھمبوں کو بھی ٹکٹ دے کر کامیاب ہونے کی بات سے کوئی اتفاق نہیں کرتا کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ آج کل کے دور میں الیکشن بھی وہ ہی لڑ سکتا ہے جوکروڑوں روپے کا خرچہ بھی اٹھا سکے۔ الیکشن لڑنا اب عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔