ہولناک زلزلہ کو 12سال مکمل،حکومت نے متاثرین تنہا چھوڑ دیئے،وزیراعظم لندن سیر سپاٹے میں مصروف

مظفرآباد (خواجہ کاشف میر،حسیب شبیر)کشمیر میں قیامت خیز زلزلہ کے 12 سال مکمل ہوگئے، زلزلہ میں معذور اور بے گھر ہونیوالے بیشتر افراد کی مکمل بحالی کے نعرے جھوٹ نکلے،وزیراعظم متاثرین کو تنہا چھوڑ کر لندن سیر سپاٹا کرتے ہوئے پائے گئے،سابقہ اورموجودہ حکومت نے عوام کو انکے حال پر چھوڑ کرسرکاری عمارتوں کی تعمیر پر فوکس کیا وہ کام بھی مکمل نہ کیا جا سکا۔ پاکستانی عوام، اداروں اور دوست ممالک کے مالی و تکنیکی تعاون سے آج تینوں بڑے متاثرہ اضلاع ظاہری طور پر تو آباد ہوگئے لیکن عوام کے دکھ درد کم نہ ہوسکے۔ہزاروں معذور افراد کو معمولی معاوضے دیکر ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا جو آج کمسپرسی کی زندگی گزار ہے ہیں اور ان کی مکمل بحالی کیلئے کوئی واضح پروگرام نہیں رکھا گیا۔تباہ ہونیوالے مکان مالکان کو جستی چادروں کے عارضی گھر بنا کر دیئے گئے اور پھر ان سے بھی منہ پھیر لیا گیا۔  آزادکشمیر میں تعمیر وترقی کے محکموں پی این ڈی۔ شاہرات۔ بلڈنگ ڈویژن۔ لوکل گورنمنٹ و دیگر کی استعداد کار میں اضافہ نہ ہو سکا۔ ایرا سیرا کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں بحالی و تعمیر نو کے درجنوں اہم منصوبے تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ شہروں میں جہاں بلڈنگ کوڈز کے بغیر بے ہنگم تعمیرات کی گئیں وہیں جاپانی ادارے جائیکا رپورٹ میں فالٹ زدہ علاقوں میں بھی تعمیرات کی گئیں جو مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی لاپرواہی کی وجہ سے عوامی سہولت کیلیے وفاقی بجٹ سے جاری سینکڑوں منصوبوں پر کام ہی شروع نہ ہوسکا۔تفصیلات کے مطابق آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کے قیامت خیز زلزلہ کو 12 سال مکمل ہو گئے ہیں زلزلہ کی اس بارہویں برسی نے متاثرہ علاقوں کے عوام کے زخم ایک مرتبہ پھر تازہ کر دیئے ہیں ہولناک سانحہ نے 46ہزار انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنایا۔ہزاروں زخمی اور معذور ہوئے ۔دو لاکھ سے زائد مکانات ملبے کا ڈھیر بنے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کا عمل گزشتہ چند سالوں سے سست روی کا شکار رہا ہے۔  حکومت پاکستان کی جانب سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران فنڈز کی فراہمی انتہائی کم کرنے سے سینکڑوں ترقیاتی منصوبہ جات مکمل نہ ہو سکے حکومت آزادکشمیر۔ کانٹر پارٹ فنڈز کی عدم فراہمی کو تعمیراتی منصوبوں میں رکاوٹ قرار دیتی آئی ہے۔ دوسری جانب اربوں روپے کی لاگت سے شاہانہ صدر اور وزیراعظم ہائوس کی تعمیرات نے غریب عوام کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ زلزلہ متاثرہ آزاد کشمیر کے 5سو کے قریب سکولوں کی تعمیر کا کام فنڈز کی قلت کے باعث شروع نہیں کیا جاسکا ہے اور تقریبا ایک لاکھ بچوں کو ابھی سکولوں کی چھت فراہم کرنا باقی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر کل 7965منصوبوں میں سے 80فیصد منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ 500 کے قریب منصوبوں پر کام جاری ہے ،جبکہ اتنے ہی منصوبوں پر کام تکمیل کے مختلف مراحل میں فنڈز کی قلت کے باعث رکا ہوا ہے۔ دوسری طرف زلزلہ کے بعد صرف وہ منصوبے جو دوست ممالک ترکی ۔ سعودیہ۔ چین وغیرہ نے خود شروع کیے تھے صرف وہ مکمل فنکشنل ہیں۔ راولاکوٹ سٹی ڈیویلپمنٹ منصوبے کے تحت ڈسٹرکٹ کمپلیکس کا صرف ایک بلاک فنکشنل ہوا۔دیگر اہم بلاک ادھورے پڑے ہیں ۔کنگ عبداللہ یونیورسٹی کے چھوٹا گلہ کیمپس پر 10 فیصد کام ہوا تھا جو اب خراب ہوگیا ہے اور تعمیرات سالوں سے رکی ہوئی ہیں۔مظفرآباد اور باغ سٹی ڈیلپمنٹ منصوبوں میں شامل درجنوں شاہرات ۔ پارکس۔ قبرستانوں سمیت اہم منصبوے شروع ہی نہیں کیے گئے۔ ادھر مطفرآباد میں ان 12 سالوں میں جو تعمیرات شہری علاقوں میں کی گئیں وہ بلڈنگ کوڈ کے خلاف ہوئیں ۔دریا کنارے پلازے۔ بستیاں بنائے گئے لیکن تمام محکمے خاموش ہیں۔ جایکا رپورٹ میں شہر کے جن علاقوں کو فالٹ لاین قرار دیا گیا وہاں بھی دھڑلے سے تعمیرات کی گئیں ۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کی تعمیرات کسی بھی وقت بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔