بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں
تحریر:صائمہ زیدی
دل ہے کہ سناٹے میں ہے۔ آنکھیں وہ منظر دیکھنا ہی نہیں چاہتیں جو انہیں روز دیکھنے پڑتے ہیں۔ کیا زندگی صرف بری خبروں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے؟ زینب آج تمہارے لیے ہر کوئی سراپا احتجاج ہے۔ سوشل میڈیا پر بس تمہارے بارے ہی میں لکھا جا رہا ہے۔ تمہاری موت پر حکومت کی جانب سے بھی افسوس کا بیان آ چکا ہے۔ تمہارے والدین سے وعدہ کیا گیا ہے کہ تمہارے مجرم کو ہر حال میں پکڑا جائے گا۔ تمہاری المناک موت اور اس سے پہلے تمہارے پھول جیسے جسم کو نوچے جانے پر ہر کوئی افسردہ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب تمہارے لیے بھی کافی ہے؟ تمہارا مجرم شاید پکڑ لیا جائے۔ اسے سخت ترین سزا بھی مل جائے لیکن کیا مرنے سے پہلے کے ان تکلیف دہ لمحوں کو تمہارے ذہن کی تختی سے ڈیلیٹ کیے جانا ممکن ہو گا؟ اخلاقی پستیوں میں گرتا ہمارا معاشرہ کیا اس بات کی ضمانت دے گا کہ پھر کوئی زینب امین اس درندگی کا شکار نہیں ہو گی؟ نہیں ایسا ممکن نہیں ہو گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ معاشرے میں موجود درندگی اور وحشت کے اس عفریت کے پاوں میں زنجیر کون ڈالے گا اور کیسے ڈالے گا۔ کیا صرف تعلیم کا عام ہونا ان وحشتناک رویوں کا سد باب کر سکتا ہے یا پھر ہمیں اپنے عمومی رویوں اور سوچ کو بھی بدلنا ہو گا۔ لیکن آدمی سے انسان بننے کے لیے آخر کتنے دن، کتنے عشرے کتنی صدیاں درکار ہوں گی؟
زینب سب کی بیٹی تھی۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ اپنے ارد گرد کے ماحول پر نظر رکھنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ سوسائٹی کے زوال کی وجہ صرف اس معاشرے کے اپنے منفی رویے ہوا کرتے ہیں۔ جب تک ہم رنگ، نسل اور مذہب ہر تعصب سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت سے محبت کے رویوں کو رواج نہیں دیں گے، جب تک ہم سڑک پر خون میں لت پت زخمیوں یا لاشوں کے پاس سے صرف اس لیے خاموشی سے گزر جائیں گے کہ مدد کر کے کہیں ہم خود مصیبت میں نہ پڑ جائیں، جب تک ہم ہنوز دلی دور است والا رویہ اپنائے رکھیں گے، زینب جیسی بچیاں اغوا ہوتی رہیں گی۔ سڑکوں پر قتلِ عام ہوتے رہیں گے اور مائیں اسکول سے اپنے بچوں کے لوٹنے کا انتظار کرتی رہیں گی۔ زینب کا مجرم کوئی ایک فرد نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے۔
پیاری زینب مجھے معاف کردینا
اگر قوم کو عمران خان کی شادی ہوئی / نہ ہوئی؟ کے حوالے سے نشر ہوتے بحث و مباحثوں سے فراغت میسر ہوجائے تو خدارا، خدارا، ذرا یاد کیجئے گا قصور کی سات سالہ معصوم زینب۔ جسے ابھی کچھ دن قبل اغوا کیا گیا اور بربریت کا نشانہ بنانے کے بعد کچرے میں پھینک دیا گیا۔ افففف میرے مولا۔ گلابی جیکٹ میں یہ پیاری سی بچی کسی پری سے کم تو نہیں لگ رہی تھی۔ ابھی تو اس نے اپنے بچپن کو جی بھر کے جیا بھی نہ ہوگا۔ ابھی تو اس کو انتظار ہوگا کہ امی ابو عمرے سے واپسی پر آتے ہوئے وہ بولنے والی گڑیا لائینگے جس کی فرمائش کی تھی زینب نے۔ ابھی تو اس نے سہیلیوں سے اپنی گڑیا اور ڈھیر سارے کھلونوں کے حوالے سے جگمگاتی آنکھیں لئے کتنی ڈھیر ساری باتیں کی ہوں گی۔ ابھی کچھ دن پہلے تو اس نے گھر میں کسی کو کھلکھلاتے ہوئے کہا ہوگا کہ ڈاکٹر بن کے سب سے پہلے ٹیکہ آپ کو لگاوں گی۔ تو یہ کیا ہوگیا اس معصوم کے ساتھ اور کیوں؟
عموما کوئی خاتون ایسی بربریت کا شکار ہو تو کہا جاتا ہے لباس ٹھیک نہیں پہنتی عورتیں۔ بے پردہ ہوگی نا یا اور سج سنور کے نکلے یا یہاں تک کہ اسی عورت کا ہی قصور ہے جیسے کانوں کو جھلسا دینے والے تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ تو بتایئے گا ذرا اس معصوم کا تو لباس بھی پورا تھا۔ ہاتھ میں نورانی قاعدہ تھا۔ اس نے ایسی کیا فحاشی یا عریانی دکھائی ہوگی درندوں کو؟
میں بحیثیت ایک انسان اندر سے ٹوٹ چکی ہوں۔ میری روح تھک چکی ہے اور میری آنکھوں سے نمکین پانی بہے جا رہا ہے اس شہزادی کی تصاویر دیکھ کے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بھولنے کی بیماری ہے۔ کل کو کوئی اور خبر آ جائے گی اور ہم بھول جائیں گے۔ کیا ایسا نہیں ہوگا؟
نہیں؟ تو کیا آپ کو ابھی بھی یاد ہے کراچی کی چھ سالہ ننھی طوبی جس کی گردن اور ہاتھ کی نسیں تک درندوں نے کاٹ ڈالی تھیں، فیصل آباد کا آٹھ سالہ مظلوم عمران جسے مدرسے میں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد برہنہ حالت میں تیسری منزل سے نیچے پھینک دیا گیا، اسلام آباد میں ایک جج صاحب کے ہاں کام پر رکھی گئی بے چاری نو سالہ طیبہ جو اپنے ننھے وجود پر بے شمار زخم لِئے لائی گئی، قصور سکینڈل جس میں معصوم بچوں کا ماضی، حال اور مستقبل داغ داغ کردیا گیا۔ قصور ہی میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران اغوا کی جانے والی دس اور معصوم کلیاں جنھیں نوچ کے پھینک دیا گیا۔ کس نے کیا ان درندوں کا احتساب؟ کس نے کیا؟ ان بھیڑیوں کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کا عہد لئے کون دھرنے پر بیٹھا؟ ان پھولوں کے لئے کس نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی؟ میں قطعا کسی کو بھڑکا نہیں رہی، صِرف یاد دلا رہی ہوں اور سوئے ضمیر جگانے کی ایک ناکام کوشش کر رہی ہوں۔
آپ کو کچھ بھی یاد نہیں ہے نا؟ تو پھر آپ سات سالہ زینب کو بھی انصاف نہیں دلوا پائیں گے۔ دو تین دن گزر جائیں گے اور کسی اور سنسنی خیز خبر کو لے کے دو چار دن اس پر شور شرابا ہوگا اور پھر کچھ اور، اور کچھ اور۔ سلسلہ چلتا رہے گا۔ کب تک چلتا رہے گا ویسے؟
میری گزارش ہے آپ سے کہ ایسے سانحات کے مظلوموں کو انصاف نہ دلوا پائے تو خیر کچھ حساب کتاب مولا کے ہاں طے ہوں گے۔ اپنی آواز کم از کم ضرور بلند کریں۔ آواز بھی بلند نہ کر پائیں تو اپنے بچوں کو اپنے سے قریب کریں۔ ان کو سمجھائیں، ان کو بچائیں۔ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے خطرات سے کھل کے آگاہ کریں۔ ان کو اتنا اعتماد دیں کہ وہ آپ سے اپنی ہر الجھن شئیر کر سکیں۔ جہاں تک ہو سکے بچوں کو نگاہ میں رکھیں۔ کسی دکان سے کچھ منگوانا ہو تو یہ نہ سوچیں کہ گلی کے نکڑ پر دکان ہے بچہ بھاگ کے لے آئے گا۔ خدا کے لئے خود زحمت کرلیں۔ نجانے یہ کیسا دور ہے کہ ہم کسی پر آنکھیں بند کرکے اعتبار نہیں کرسکتے خصوصا بچوں کے معاملے میں تو جب تک ان میں سمجھداری والا عنصر نمایاں نہ ہو جائے تھوڑی زحمت کریں۔ اسکول، ٹیوشن یا اکیڈمی، مدرسے یا مسجد میں نماز ادا کرنے جاتے آتے حتی الامکان ساتھ رہیں یا بڑے بھائی کو ساتھ رکھیں۔ بعد میں عمر بھر کے رونے سے بہتر ہے پہلے تھوڑی سی تکلیف اٹھا لی جائے۔
پیاری زینب مجھے معاف کردینا، میں اس دور میں جی رہی ہوں جہاں انسان کم ہیں انسانیت بھی ڈھونڈے سے ملتی ہے۔ ہاں وحشت اور بربریت کا راج ہے۔ تم نے رب سے جا کے شکوہ تو کیا ہوگا۔ اپنا قصور تو پوچھا ہو گا۔ تمھیں لگا ہو گا کہ زمین بھی مارے شرمندگی اور دکھ کے دھنس چکی ہو گی۔ تو مجھے معاف کرنا پیاری زینب، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ سب کچھ پہلے سا چل ریا ہے۔ بس ایک تم نہیں ہو۔