خان صاحب خوابوں پر تکیہ نہ کریں
تحریر: ارشاد محمود
یہ جولائی 2006کی بات ہے راقم الحروف ٹائم میگزین کے ساتھ ایک سٹوری پر کام کر رہا تھا کہ اسلام آباد میں لال مسجد کا تنازعہ شدت اختیار کر گیا۔ پاکستانی ہی نہیں دنیا بھر کا میڈیا اس کی کوریج کے لیے اسلام آباد کے ہوٹلوں میں ہجوم کیے ہوئے تھا۔ ہماری بیوروچیف بھی لال مسجد پر سٹوری کرنے کے لیے بے چین ہوگئی۔ عبدالرشید غازی سے گہری یاد اللہ تھی۔ انٹرویو کا وقت لیا اور لال مسجد کے پہلو میں قائم دفتر چلے گئے۔ لیپ ٹاپ، موبائل فون، ٹی وی اور لگ بھگ تمام جدید موصلاتی آلات سے مزین کمرہ دفتر کم اور کنٹرول روم زیادہ لگا۔
گفتگو چل نکلی تو بات معاشرے اورنظام حکومت کو بدلنے کے طریقہ کار اور خاص کر جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنے پر مرکوز ہوگئی۔ عبدالرشید غازی قائداعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ ان مباحث سے خوب واقف تھے اور استدلال سے گفتگو کرتے۔ بات چیت جاری تھی کہ ایک طالب علم نے اطلاع دی کہ بڑے مولانا یعنی عبدالعزیز صاحب بھی شریک محفل ہونا چاہتے ہیں۔ وہ اس سارے تنازعے کا محور تھے۔ مسجد اور مدرس سے وابستہ طلبہ وطالبات پر ان کا اثر رسوخ بہت گہرا تھا۔
نتازعہ کے اصل کردار کے ساتھ انٹرویو کا موقع ملنے پر ہماری مسرت دیدنی تھی۔ حضرت نے ہمارے ساتھ لگ گھنٹہ بھر گفتگو کی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ان کی بیگم جنہیں ام حسان کے نام سے پکارا جاتاہے، کو بشارت ہوئی، کہ ملک میں موجودہ طاغوتی نظام کو اٹھا کر پھینک دیا جائے۔ شریعت نافذ کردی جائے اور مملکت پاکستان کی باگ ڈور صالحین کے حوالے کردی جائے۔ انہیں بتایا کہ ایک طاقت ور ریاست کے ساتھ جس کی پشت پر عالمی طاقتیں کھڑی ہوں اور خاص کر چینی باشندوں کی ایک مساج سنٹر سے اغوا کے بعد پاکستان کے شہریوں کی غالب اکثریت بھی حکومت کے ساتھ ہو وہ ٹکراو سے سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں کرپائیں گے۔ عبدالرشید غازی نہ صرف ہمارے ساتھ اتفاق کرتے بلکہ ہماری ہمت افزائی کرتے کہ ہم مولانا عبدالعزیز کودرپیش خطرات سے آگاہ کریں۔
بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی بیگم ام حسان کو خواب میں حکومت کے خلاف مزاحمت کا حکم ملا ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالعزیز اس حکم کی تعمیل میں سرگرم ہوگئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ سینکڑوں خاندان متاثرہوئے۔ لال مسجد کے فوجی آپریشن کی کوکھ سے دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھی جس کا پورے ملک کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ عبدالرشید غازی جیسا زیرک انسان اپنے ہی بھائی اور بھابی کے خوابوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ایک اور خواب ملا محمد عمر نے دیکھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان سے علما کا وفد قندھار گیا۔ ملاعمر کو سمجھایا گیا کہ اسامہ بن لادن امریکہ میں حملوں میں مطلوب ہیں۔ امریکہ ہی نہیں، ایک عالم ان کا مخالف ہوچکا ہے۔ دنیا افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کو تلی ہوئی ہے۔ حضور! رحم فرمائیں افغانوں اور مسلمانوں پر اور اسامہ بن لادن کو افغانستان سے چلتا کریں۔ موصوف نے بلاتامل فرمایا کہ انہیں خواب میں اسامہ بن لادن کو ملک بدرکرنے سے منع کردیا گیا۔ علما کا وفد پاکستان لوٹ آیا۔ چند ہفتوں بعد امریکہ کی قیادت میں افغانستان میں آتش وآہن کی بارش کردی گئی۔ اسامہ بن لادن غاروں میں اترگئے اور ملا عمر موٹر سائیکل پر اپنے دارالحکومت سے فرار ہوتے دیکھا گیا۔ اسامہ بن لادن بعد ازاں ابیٹ آباد میں ایک امریکی فوجی آپریشن میں مارے گئے۔ پاکستان کے لیے بے پناہ مشکلات اور جگ ہنسائی کا سبب بننے۔ خواب کی بنیاد پر سیاسی فیصلے کرنے والوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اب کیا کریں؟
عمران خان گزشتہ کچھ عرصے سے بتدریج روحانیت کی طرف مائل ہوتے گئے۔ پروفیسر رفیق اختر سے استفادہ کیا لیکن جلد ہی بے زار ہوگئے۔ کچھ عرصے سے خبریں آرہی تھیں کہ وہ کسی پیرنی کے مرید ہوچکے ہیں۔ سیاسی اور نجی زندگی کے اہم فیصلے ان کی مشاور ت سے کرتے ہیں۔ مجھے ان کے اس طرزعمل پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ اکثر لوگ جن کی بنیادی اٹھان مغربی طرززندگی پر ہوتی ہے وہ ڈھلتی عمر میں مذہب کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ داڑھی لمبی کرلیتے ہیں اور بھاشن دینے میں ان کا دل لگتا ہے۔
اب موصوف نے اسی پیرنی صاحبہ کو شادی کی پیشکش کردی۔ اگرچہ اس پیشکش میں کچھ غلط نہیں۔ وہ اپنی نجی زندگی کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں۔ اگر وہ ایک عام شہری ہوتے تو لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بنتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کی دنیا بھر میں کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی۔ شہریوں اور میڈیا نے ان کے ایک ایک عمل پر نظریں گاڑی ہوتی ہیں۔ ان کے خاندان اور بچوں کو خاص طور پر محاسبے کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن اپنی ایک اسٹاف افسر کے ساتھ معاشقہ میں ملوث پائے گئے۔ انہیں نہ صرف صفائی دینی پڑی بلکہ اپنے طرزعمل کی معافی بھی مانگنا پڑی۔ یہ سارا عمل ٹی وی چینلز پر لائیو دکھایا گیا۔
عمران خان قائداعظم کی مثالیں دیتے ہیں لیکن یہ ذکر نہیں کرتے کہ انہوں نے تحریک پاکستان کی خاطر انیس سال تک مجرد زندگی گزاری۔ محترمہ فاطمہ جناح گھر بسانے کے بجائے اپنے بھائی کے ہمرکاب ہوئیں اور پاکستان بنانے کے لیے ذاتی خوشیاں قربان کردی۔ بھار ت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو جو عمران خان کی ہی طرح کا رومانوی مزاج رکھتے تھے، نے اٹھائیس تک دوسری شادی نہ کی۔ اپنا وقت اور توانائی وطن کی تعمیر پر لگا دیے۔
کوئی دن جاتا نہیں کہ عمران خان کی ذاتی زندگی کے سکینڈلز میڈیا کا پیٹ نہ بھرتے ہوں جوکہ ایک افسوسناک عمل ہے۔ عائشہ گلالئی کا قصہ تمام نہیں ہوا تھا کہ ایک اور ایشو سامنے آ گیا۔ بظاہر اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر اس مسئلہ کو مذہب اور خواب کا رنگ دے دیا گیا۔
جو لیڈر تبدیلی چاہتا ہے اسے اپنے اعصاب پر قابو ہونا چاہیے۔ اپنے اور پارٹی کے امیج کی بھی فکر بھی کرنی چاہیے۔ لیڈر لوگوں کی امیدوں کا مرکز ہوتاہے۔ خان صاحب کی شادیوں کا ریکارڈ مثالی نہیں۔ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ذاتی معاملات کو نجی طور پر نمٹایا جاتا تو وہ نجی رہتا لیکن عمران خان یہ مانے کے لیے تیار ہی نہیں کہ وہ اب پاکستانیوں کے ایک طبقے کے لیڈر ہیں نہ کہ کرکٹ کے ہیرو۔
عام الیکشن سر پر ہیں۔ الیکشن میں کامیابی دم درود سے ملتی تو پارلیمنٹ گدی نشینوں، پیروں ہی پر مشتمل ہوتی۔ دنیا عالم اسباب ہے۔ اس میں محنت، ریاضت اور درست حکمت عمل اختیار کرنے سے سیاسی کامیابی ملتی ہے۔ قران مجید کا ارشاد ہے : انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے سعی کی۔ بہتر یہی ہے کہ خان صاحب خوابوں کی دنیا سے نکلیں اور سیاسی معاملات کو سیاسی طریقوں سے حل کریں۔