نریندر، نیتن گٹھ جوڑ خطے کے امن کے لئے بڑاخطرہ ہے .. !!
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ان دنوں بھارت کے اہم اور طویل دورے پر ہیں۔اتوار کے روز جب نیتن یاہو نئی دہلی پہنچے تو نریندر مودی نے سفارتی پروٹوکول توڑتے ہوئے ائیر پورٹ پر نیتن اور ان کی اہلیہ کا خود استقبال کیا۔ اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ 130کاروباری شخصیات کا وفد ہے جن میں عسکری کمپنیوں کے سربراہان بھی شامل ہیں،یہ 15برس بعد کسی بھی اسرائیلی وزیر اعظم کا بھارت کا پہلا دورہ ہے،اس سے قبل 2003 میں اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم ایریل شیرون ہندوستان آئے تھے جبکہ گزشتہ برس جولائی میں نریندر مودی نے بھی اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔گزشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کی اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان سول ایوی ایشن، آئل، گیس، سائبرسکیورٹی، ٹیکنالوجی، فلم پروڈکشن سمیت مفاہمت کی 9یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں نیتن یاہو نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کو سراہا۔نیتن یاہو نے بھارت کو عالمی لیڈر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا دورہ عالمی، معاشی، سیکورٹی ، ٹیکنالوجی اور سیاحتی طاقت کیساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے کا موقع ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی اسرئیل اور میرا قریبی دوست ہے، اس موقع پر مودی کا کہنا تھا کہ آپ کا دورہ بھارت تاریخی اور بہت اہم ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کے دورہ بھارت کا مزا اس وقت کرکرا ہوگیا جب نیتن یاہو کی آمد پر نئی دہلی سمیت دیگرشہروں میں اسرائیل کی مخالفت میں مظاہرے کئے گئے۔نئی دہلی میں بھارتی شہریوں نے فلسطینیوں پراسرائیلی مظالم کیخلاف احتجاجی مارچ کیا، اسرائیل مخالف نعرے لگاتے ہوئے شرکاء نے اسرائیلی وزیر اعظم سے اسرائیل واپس لوٹنے کا مطالبہ کیا، مظاہرین نے نتین یاہو کا پتلا بھی جلایا۔نیتن یاہو کے ہمراہ اسرائیلی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی وفد بھارت آیا ہے جو یہاں ٹیکنالوجی، زراعت اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے کیلئے بھارتی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اسرائیل بھارت کو سب سے زیادہ اسلحہ فراہم کرنے والا ملک ہے۔ہر سالہ ایک ارب ڈالر سے زائد کا عسکری ساز و سامان بھارت کو فروخت کرتا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کا دورہ خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کو افغانستان میں اہم کردار سونپنے کا خواہش مند ہے۔1992میں شروع ہونے والے بھارت اسرائیل میں تیزی لانے کا سہرا نریندرا مودی( جسے گجرات میں قصائی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں ملوث ہے) کے سر پر ہے۔دوسری طرف ایریل شیرون کا جانشین نیتن یاہو اس وقت اسرائیل کی قیادت کر رہا ہے۔اسرائیل اس وقت امریکی صدر ٹرمپ کے ایک انتہائی اقدام کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بن رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی امداد بند کرنے کی دھمکیوں کے باوجود دنیا نے اسرائیل کے حق میں ووٹ نہیں دیا جبکہ اسرائیل کی مخالفت میں ووٹ دینے والوں میں بھارت بھی شامل تھا۔ جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات ایک خاص نظریے کی بنیاد پر دیکھے جا سکتے ہیں اس کا عالمی تعلقات یا عالمی سطح پر ہونے والے الائنس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ خاص نظریہ جس پر دونوں ممالک اکٹھے ہیں وہ ظلم ، جبر اور مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا ہے۔ بھارت میں اس وقت ہندوتوا کی تحریک کو مکمل طور پر سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ چیف جسٹس سے لے کر آرمی چیف تک سب اسی تحریک کے حامی نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ آرمی چیف کو بھی سنیارٹی اور میرٹ کو نظر انداز کر کے تعینات کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف آئے دن کبھی چین اور کبھی پاکستان کو دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس وقت تو دنیا میں بھارت کو سبکی اٹھانا پڑی جب آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے دوران پاکستان کو نہ صرف ایٹمی حملے کی دھمکی دے دی بلکہ یہ اقرار بھی کر لیا کہ لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے۔ بھارت کے حالات کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی بھارتی جنتا پارٹی کے عہدیداروں کی خوشنودی کے لیے انتہائی اقدامات کرنے کے لیے تیار نظر آتاہے۔ بھارت اور اسرائیل کی مشترک میں پہلا مسئلہ مسلمانوں کی جائیداد پر قابض ہونا ہے۔ کشمیر میں بھارت گزشتہ ستر سالوں سے قابض ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود کشمیر سے قبضہ ختم کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا جبکہ اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کئی لاکھ فوج تعینات کر کھی ہے جو وہاں موجود رہائشیوں پر ہر طرح کے ظلم و جبرکو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی آبادی کے خاتمے کے لیے اسرائیل دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں آباد کررہا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر فورم پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے تاہم اسرائیل اس کی پروا کیے بغیر فلسطین میں نئی یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے۔ اسی طرح کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے بھارت بھی مختلف پنڈت بستیوں کی تعمیر میں مصروف ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے کیمیائی اور مہلک ہتھیار استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا یہی کچھ بھارت بھی کشمیر میں کر رہا ہے۔ پیلٹ گنوں کے استعمال میں تیزی کے علاوہ ایسے آثار بھی پائے گئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت فوج نے ممنوعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کریے ہیں۔اسرائیل بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے لیے وبال(باقی صفحہ6بقیہ نمبر8)
جان بن چکا ہے اور یہی صورتحال بھارت کے ساتھ بھی ہے کہ کوئی بھی ہمسایہ ملک اس کے شر سے محفوظ نہیں ہے۔ان حالات میں جب ایک طرف ہندو توا کا نظریہ سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھ رہا ہے تو دوسری طرف صہیونی ریاست کے قیام کے لیے بھی ہر طرح کے منفی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے دورے کے دوران واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائیل اور انڈیا وہ قدیم تہذیبیں ہیں اور ہمارے رشتے بہت خاص ہیں ، امریکی قرارداد کے حق میں ووٹ نہ دینے کے باوجود ہمارے رشتوں پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔بھارت کے لیے اسرائیل میں کشش اس لیے موجود ہے کہ وہ اسرائیل سے دفاع تعاون چاہتا ہے۔ اس وقت دینا میں بھارت دنیا میں اسلحہ کی خریداری کے حوالے سے دنیا کی فہرست میں بہت اوپر ہے۔ جنوبی ایشیا میں سپر پاور بننے کا خواب اسی صورت پورا ہو سکتا ہے جب اسرائیل جیسا ملک بھارت کے وہ دفاعی ہتھیار بھی فراہم کر سکے جو وہ براہ راست امریکہ یا دیگر ممالک سے نہیں لے سکتا۔ دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور رشتوں میں مضبوطی کی ایک بڑی وجہ کشمیر میں آزادی کی جاری تحریک پر اسرائیل کے تعاون سے قابو پانا ہے۔برہان وانی کے بعد وادی میں اٹھنے والی آزادی کی نئی لہر نے بھارت کو دنیا بھر میں رسوا کر کے رکھ دیا۔کشمیر کی تحریک آزادی میں ایسی اٹھان دیکھنے میں آئی کہ دنیا اسے نظر انداز نہ کرسکی اور بھارت کی جانب انگلیاں اٹھنے لگیں۔ پاکستان کا وجود بھی ان دونوں رہنماؤں کا قدر مشترک ہے۔ دونوں رہنما پاکستان کے وجود سے خائف ہیں۔
پاکستان جس مضبوطی کے ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ شروع دن سے کھڑا ہے اور اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے وہ شاہد عرب ممالک میں بھی موجود نہیں۔دوسری جانب جنوبی ایشیا میں سپر پاور بننے کے خواب کے پورا ہونے میں بھی پاکستان ہی بڑی رکاوٹ ہے سو یہ مشترک بھی دونوں رہنماؤں کو ایک ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ اتحاد کس حد تک کامیاب ہو سکتا ہے یہ کہنے کی شاید اتنی ضرورت نہیں تاہم یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ فلسطین اور کشمیر پر مستقل قابض رہنا ان دونوں کے لیے ممکن نہیں کیونکہ ظلم اور طاقت کی بنیاد پر کچھ عرصہ تک تو کسی قوم کی آزادی سلب کی جا سکتی ہے لیکن مستقل ایسا ہونا ممکن نہیں۔اس لیے وہ وقت ضرور آئے گا جب فلسطین و کشمیر کے مجبور مقہور لوگ ان کے مظالم سے چھٹکارا حاصل کر کے آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔