کشمیر کا مسئلہ کیوں حل نہیں ہوتا؟
5فروری کو پاکستان بھر میں یوم کشمیر منایا گیا جلسے ہوئے، جلوس اور ریلیاں ہوئیں جن میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا گیا اورکشمیری عوام کی آزادی کے لیے دعائیں کی گئیں ، دعاں اور اظہار یکجہتی کا سلسلہ 70 سالوں سے جاری ہے۔ یہ سوال ذہن میں آنا فطری بات ہے کہ ہماری دعاں اورکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے باوجود کشمیری اب تک بھارتی قبضے سے آزاد کیوں نہ ہوسکے؟ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے ۔
مادی وسائل اور مادی طاقت عموما روحانی وسائل اور روحانی طاقت پر غالب رہی ہے جس کا مطلب یہ ہوگا کہ آج کی دنیا میں مادی وسائل اور مادی طاقت ہی برتر ہے روحانی طاقت روحانی وسائل اس غلیظ مادہ پرست دنیا میں سیکنڈری حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح مادی طاقت اخلاقی اور شرافتی طاقت پر حاوی ہوگئی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا کے سیاسی اکابرین نے دنیا کو جنگوں اور ناانصافیوں سے بچانے کے لیے ایک عالمی ادارہ بنایا جس کا نام اقوام متحدہ رکھا گیا یعنی دنیا کی قوموں کا مرکز۔اگر یہ ادارہ آزاد اور غیر جانبدار ہوتا تو بلاشبہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کو کب کا حل کرچکا ہوتا لیکن یہ ادارہ نہ آزاد ہے نہ غیر جانبدار بلکہ اس پر دنیا کی واحد سپرپاورکا قبضہ ہے اور قابض طاقت اس ادارے کو غیر جانبدار نہیں رہنے دیتی بلکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہے اور اس سپر طاقت کی مرضی اس کے مفادات کے تابع ہوتی ہے جب کسی عالمی ادارے کی آزادی کسی سپر طاقت کی محتاج ہوجائے تو کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل جنم ہی نہیں لیتے بلکہ صدیوں تک زندہ بھی رہتے ہیں۔
کشمیر ایک بہت ہی سیدھا سادہ عوام کے حق خود ارادی یعنی اپنی مرضی سے زندہ رہنے کے حق کا مسئلہ ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی اخلاقیات کا راج ہوتا ہے لہذا طاقتور ملک بھارت بالادست بنا ہوا ہے اور اس مسئلے کا تیسرا فریق پاکستان بے دست و پا بنا ہوا ہے ۔ اس لیے کہ وہ بھارت کی فوجی طاقت کے مقابلے میں کمزور پوزیشن کا حامل ہے اگر پاکستان فوجی طاقت کے حوالے سے بھارت کے مقابلے کا ملک ہوتا تو نہ کشمیرکا مسئلہ پیدا ہوتا نہ 70سالوں سے لٹکا ہوا ہوتا یہ
سب سرمایہ دارانہ نظام کی اخلاقیات ہیں کہ طاقت کے سامنے سر جھکا اور کمزور کے سر پر سوار رہو۔
1947 میں جب حالات کے جبرکی وجہ سے برطانیہ کو اپنی اس نوآبادی برصغیر سے نکلنا پڑرہا تھا تو اس کے مفادات کا تقاضہ یہ تھا کہ برصغیر متحد نہ رہے بلکہ دو ٹکڑوں میں بٹ جائے سو اس نے ایسے حالات پیدا کردیے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے برصغیر کے جسم میں فرقہ واریت کا ایسا زہر گھول دیا کہ برصغیر کی تقسیم کا خودبخود ایسا جواز پیدا ہوگیا کہ برصغیر کو متحد رکھنے کے خواہش مند بھی اس کی تقسیم پر مجبور ہوگئے نوآبادیاتی طاقت اسی پر قانع نہ رہی بلکہ اپنے مستقل مفادات کے تحفظ کے لیے ایک بندر کا پھوڑا ورثہ میں چھوڑ دیا جو برصغیر کے دو ارب کے لگ بھگ غریب عوام کے بہتر مستقبل کو بدتر مستقبل میں بدلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس مسئلے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ہزاروں سالوں سے بھائیوں کی طرح رہنے والے عوام ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے، اگر برصغیر کے عوام دوستوں کی طرح رہتے تو انھیں ان اذیت ناک مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو تقسیم کی وجہ سے ان کا 70 سال سے مقدر بن گئے ہیں۔
یہ مسئلہ 70 سالوں سے اقوام متحدہ کی جیب میں پڑا سڑ رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف بھارت کا برسر اقتدار طبقہ علاقے کے معروضی حالات اور سامراجی مفادات ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کا حکمران طبقہ جو ماضی میں اپنی غیر جانبدارانہ قیادت کی وجہ سے دنیا میں تعریف کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اب امریکا کے عالمی مفادات کی زنجیر میں اس مضبوطی سے بندھ گیا ہے کہ من تو شدم تو من شدی کی تصویر بن گیا ہے۔
امریکی اہل دانش چین کو امریکا کے مستقبل کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اور اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بڑی علاقائی طاقت کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بھارت کا حکمران طبقہ احسن طریقے سے پوری کر رہا ہے اور اس احسان کا بدلہ امریکا کشمیر کے مسئلے پر بھارت کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر دوغلی سیاست کے ذریعے چکا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کا قیام دنیا میں جنگوں کو روکنے اور مظلوموں کو انصاف دلانے کے لیے عمل میں آیا تھا لیکن امریکا نے اس ادارے پر قبضہ کرکے اس ادارے کے مقاصد کو سبوتاژ کردیا اور یہ ادارہ اپنے جانبدارانہ کردار کی وجہ سے جنگوں کو روکنے اور مظلوم قوموں کو انصاف دلانے کے بجائے جنگوں کی آبیاری اور مظلوم قوموں کے ساتھ جانبداری اور ناانصافی کا کردار ادا کر رہا ہے، اس ادارے نے کشمیر میں رائے شماری کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی قراردادیں پاس کی تھیں لیکن یہ قراردادیں سامراجی مفادات اور بھارتی حکمران طبقے کے علاقائی مفادات کی نذر ہوگئیں اور یہ مسئلہ خطے میں امن لانے کے بجائے جنگوں کا باعث بن گیا۔
اس مسئلے ہی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان تین جنگیں لڑی گئیں اور دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں کے مالک بن گئے۔ میڈیا آج کی دنیا کی ایک بڑی طاقت بنا ہوا ہے اور دنیا کے سنگین مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی ہے کہ بھارتی میڈیا قومی مفادات کے جال میں پھنس کر کشمیرکے مسئلے کو جنوبی ایشیا کے اربوں عوام کے بہتر اور پرامن مستقبل کے بجائے دونوں ملکوں اور دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان دشمنی اور نفرتوں میں اضافے کا سبب بن گیا ہے، بھارت کا حکمران
طبقہ امریکا کی طرح چین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اسی سائیکی کے تحت وہ علاقے میں اپنی پالیسیاں تشکیل دیتا ہے۔
بھارت کے فوجی حکمرانوں کو ہی نہیں بلکہ بھارت کے دانشوروں مفکروں کو بھی اس خطے میں رہنے والے عوام کے مستقبل سے کوئی دلچسپی نہیں وہ چین کے مفروضہ خطرے کے خوف میں مبتلا ہیں اور ان کی بے ہودہ سائیکی یہ ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے یا چین کے پھیلا کو روکنے کے لیے کشمیر پر بھارت کا قبضہ ضروری ہے، یوں یہ مسئلہ نہ ہندوں کا مسئلہ رہ گیا ہے نہ مسلمانوں کا نہ کشمیریوں کا بلکہ یہ مسئلہ خطے میں بھارت کو لاحق ان خیالی اور فرضی خطرات کا مسئلہ بن گیا ہے جو چین کی طرف سے ممکنہ طور پر بھارت کو لاحق ہیں۔ جب تک چین اور بھارت کے درمیان تنا اور کشیدگی باقی ہے کشمیر کا مسئلہ حل ہونا مشکل ہے ، خواہ اقوام متحدہ کتنی ہی قراردادیں پاس کرے خواہ پاکستان کتنے ہی یوم کشمیر ہر سال منائے۔