ایران عمان سے بھارتی معاہدے اور پاکستان

عین اس وقت جب پاکستان کے حکمران اعلی عدالتوں میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ وزارتِ عظمی کا منصب بظاہر مفلوج نظر آرہا ہے، ارباب ِحکومت سعودی عرب کی امداد کے لیے روانہ کی گئی فوج میں اضافے پر غور کر رہے ہیں، ہماری افواج ہنوز ملک کے اندر دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بر سر پیکار ہیں، فوج کے چیف افغانستان میں امن و استحکام کے مذاکرات میں شرکت فرما کر اعلان کر چکے ہیں کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے تمام اڈے ختم کر دئیے گئے ہیں ،ہمارے محترم وزیر داخلہ عمان میں ایک کانفرنس میں تقریر کرنے کے بعد واشنگٹن میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر اپنے ماہرانہ خیالات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں سینٹ میں پہنچنے کے لئے ارکان اسمبلی کے ضمیروں کی بولی لگا رہی ہیں،لیکن ہرملکی معاملے پر نظر رکھنے والے جناب ضیاشاہد اور ان کے فرزند ارجمندجناب امتنان شاہد کے سواکسی کو یہ تک خبر نہیں کہ سی پیک کو روکنے نہیں بلکہ اس کی گزرگاہوں کو کنٹرول کرنے کے ایک بہت اہم معاہدے پر ہندوستان کے وزیر اعظم مودی نے عمان کی حکومت کو راضی کر لیا بلکہ اس پر دستخط ثبت کر دئیے ہیں ، مجھے معلوم نہیں کہ مسقط میں سفارت خانہ پاکستان نے اس معاہدے سے پہلے حکومت پاکستان کو کتناباخبررکھا ، بلکہ کس حد تک خبردار کیا اورہمارے وزیر داخلہ احسن اقبال کے دورہ عمان کے دوران ا ن کو اس پر کس قدر معلومات دیں اورمستقبل میں پڑنے والے مضمرات پر متنبہ کیا ۔
سلطنت عمان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اسلامی اخوت کی بنیاد پر صدیوں پر محیط ہیں، عمان پاکستان کا پانچواں ہمسایہ ملک ہے۔ 1872میں عمان کا منتخب ہونے والا سلطان سعید بن احمد ال سعید امیر قلات کا داماد تھا اور گوادر کا علاقہ جہیز میں پانے کے بعد عمان میں شامل ہو گیا تھا۔ 1958میں فیروز خان نون نے عمان سے گوادر 3ملین ڈالر میں خرید کر صوبہ بلوچستان کے حوالے کر دیا۔ 1960سے 1972 تک روس کی حمایت یافتہ بغاوت کا سر کچلنے میں جہاں ہندوستان روس کا ساتھی ہونے کی بنا پر خاموش تماشائی بنا رہا،وہاں ایران، اردن اور پاکستان نے اپنی فوجی قوت سے عمان کی مدد کی جس کا اعتراف سلطان قابوس بن سعید نے بارہا کیا۔ صلالحہ میں ایک قبرستان کے سامنے اجتماع کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا یہ ان بہادر پاکستانی جوانوں کی قبریں ہیں جنہوں نے ہمارے وطن کے تحفظ کی خاطر اپنے عمانی بھائیوں کے ہمراہ لڑتے ہوئے جانیں قربان کیں۔
جناب امتنان شاہد کی ایکسکلوسیو رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم مودی نے 12فروری 2018کو سلطنت عمان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس کے مطابق بھارتی افواج کو عمان میں تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والی دقم پورٹ تک نہ صرف رسائی مل گئی ہے بلکہ اسے فوجی مقاصد کے استعمال کی سہولت بھی حاصل ہو گئی ہے،ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے تحت بھارت کی بری فوج اور ائیر فورس دقم پورٹ استعمال کرسکے گی۔ مودی کے عمان کے دورے کے دوران دونوں ملکوں نے 8معاہدوں پر دستخط کیے جن سے عمان میں بھارت کے اثر و رسوخ میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔عمان اوربھارت کے سپیشل پاسپورٹ والے افسران بشمول را  بغیر ویزہ سفر کر سکیں گے۔ عمان کے ڈپلومیٹک ادارے اور بھارت کے اداروں کے درمیان قریبی تعلقات ہونگے ،انڈیا عمان میں سرمایہ کاری ترجیحی بنیاد پر کرے گا اور خصوصاانڈیاعمان کی فوڈ سکیورٹی میں مدد کریگا ، یہ عجیب اتفاق ہے گذشتہ سال ہوٹل فلیٹیز میں پائنا کے زیر اہتمام وزیر داخلہ احسن اقبال کی صدارت میں منعقدہ سیمینار میںان کی توجہ دقم میں بننے والی بہت بڑی بندرگاہ کی طرف مبذول کروائی گئی تھی اورخاص طور پر انہیں دقم اور چاہ بہار میں ہونے والی شراکت سے متنبہ کیا گیا تھا، پھر 12جنوری 2018کو احسن اقبال کی عمان روانگی سے قبل انہیں ایک بریف بھیجا گیا ، عمان کے سلطان کی فوڈ سیکیورٹی میںگہری دلچسپی اور ضرورت کے پیش نظر وزیر محترم سے درخواست بھی کی تھی کہ وہ اپنے قیام کے دوران ان چند احباب سے ملاقات کریں جو پاکستان کے دوست تصور کئے جاتے ہیں۔ انہیں پاکستان آنے کی دعوت دیں تاکہ عمان کی حکومت پاکستان میں اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرے ، ابھی تک کسی ایسی ملاقات کی خبر وزیر موصوف یا عمان سے نہیں ملی البتہ یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ پاکستانی میزبانوں نے انہیں زیادہ تر اصل ہدف سے ہٹ کر غیر اہم اور نمائشی کاموں میں مصروف رکھا۔
عمان کے انتہائی کامیاب دورے کے بعد بھارتی وزیر اعظم مودی ایران گئے جہاں انہوں نے 9دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کیے جو آنے والے دنوں میں ایران اور بھارت میں مضبوط تعلقات ، چاہ بہار اور دقم کی ہندوستانی شراکت، دقم کے بعد چاہ بہار میں بھارتی فوج کے ممکنہ قیام کی راہ ہموار کریں گے۔بھارت نے ایران کے اس دورے کی اہمیت کو مزید تقویت دینے کے لئے صدر حسن روحانی کے دورہ بھارت کے موقع پر چاہ بہار کے انتظام و انصرام کا معاہدہ بھی کر لیا ہے جس کے بعد گوادر کے دونوں جانب بندرگاہیں بھارتی کنٹرول میں چلی گئی ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہر ملک کسی دوسرے ملک سے معاہدہ کرتے وقت اپنے مفادات کا خیال رکھتا ہے ، اس لحاظ سے عمان اور بھارت باہمی اشتراک کا کوئی معاہدہ کرنے میں خود مختار ہیں لیکن یہ پاکستان کی حکومت کا اولین فریضہ ہے کہ وہ 65 بلین ڈالر کے سی پیک منصوبے کو پیش آنے والے خطرات پر نظر رکھے۔یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ عمان کے سلطان عام طور پر مہمان وزرا سے نہیں بلکہ صرف وزراعظم سے ملاقات کرتے ہیں، سلطان قابوس آخری بار 2000 میں پاکستان تشریف لائے تھے اور برادر ملک پاکستان کے ساتھ دینی، ثقافتی اور علاقائی تعلقات کو معاشی اور اقتصادی تعلقات میں بدلنے کی پر زور حمایت کی تھی، عمان اور سلطان عمان قابوس بن سعید المعظم نے بینظیربھٹواور شوکت عزیز کو عمان کے دورے کے دوران جو بے پناہ عزت و احترام دیا اس کا تقاضہ تھا کہ ان تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا کی جاتی لیکن یوسف رضا گیلانی کے بے معنی دورے کے بعد بد نصیبی یہ ہوئی کہ میاںنواز شریف جن کا مسقط کے سرکاری حلقوں میں احترام پایا جاتا تھا، اپنی تینوںوزارتِ عظمی کے دوران دیگر مصروفیات کی بنا پر عمان تشریف نہ لے جا سکے۔ عمان میں سلطان قابوس بن سعید کی حکمرانی ہے اور امور مملکت کے فیصلے وہی کرتے ہیں، اتنے لمبے عرصے تک پاکستان کے وزیر اعظم کا عمان نہ جانا اور محض چند وزراکے تفریحی دوروں یا سفارت خانہ کی کاوشوں پر انحصار کرنا آج کے دور کی سفارت کاری کی ضروریات سے قطعی مطابقت نہیں رکھتا۔
پاکستان کا بااثر میڈیا جو دن رات اغوائ، قتل، چوری، ڈاکے اور سب سے بڑھ کر عدلیہ اور سیاستدانوں ارشادات کی تشہیر میں مشغول رہتا ہے، اس نے بھارت اور عمان کے درمیان طے پانے والے ان معاہدوں کا ذکرتک نہیں کیا جن کا تعلق پاکستان کی معاشی شہ رگ پر بھارت کے قبضے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ آنے والے دنوں میں بھارت اور عمان کا بھارتی ائیر فورس اور افواج کو دقم استعمال کرنے کا معاہدہ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کی بد ترین ناکامی تصور کیا جائے گا۔
اس بات کا یقین کامل ہے کہ پاکستان کی حکومت کو چاہ بہار میں ہندوستان کی گہری دلچسپی کا علم تھا، مسابقت کے اصول کو مانتے ہوئے ایران کا اپنی بندرگاہ چاہ بہار میں توسیع کا حق بھی تسلیم کرنا ضروری ہے لیکن ایران کو اس بندرگاہ کی توسیع اور کامیابی کے لیے بھارت کی گود میں دھکیلنا کسی طرح قابل قبول نہیں۔ اسی تناظر میں عمان کا دقم جو علاقہ کی بہت بڑی بندرگا ہ بننے جا رہی ہے کے بارے میں کسی ملک سے امداد حاصل کرنا یا اشتراک کا معاہدہ کرنا بھی اس کی صوابدید میں ہے ، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت پاکستان، وزارت خارجہ یا سفارت خانہ پاکستان نے کتنی جدوجہد کی ۔ جبکہ عمان کے اندر درجنوں ایسے افراد اور شیوخ موجود ہیں جو پاکستان سے محبت رکھتے ہیں اور سلطان معظم تک پاکستانی موقف دلیل کے ساتھ پہنچا سکتے ہیں۔
دقم کی بندر گاہ کے فوجی مقاصد اور خصوصابھارتی ائیر فورس کے استعمال سے پاکستان کے لئے جو خطرات پیدا ہونے والے ہیں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے، آنے والی نسل یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہو گی کہ کیا وزیر اعظم پاکستان نے سلطان قابوس بن سعید المعظم سے رابط کر کے انہیں پاکستان کی سلامتی کو ممکنہ خطرات اور پاکستان کی جائز تشویش سے آگاہ کیا۔