خونی لکیر،کون توجہ دے گا؟
کشمیر کے جسد پر قائم طویل اور بلند خاردار تار کی سنگینی کسی بھی طورشمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان سب سے بڑی قلعہ بند اور سرحدی لکیر سے کم نہیں جسے عرف عام میں اڑتیس متوازی کہا جاتا ہے۔اس سرحدی لکیر کے دونوں جانب مسلح محافظ محاورتا نہیں بلکہ عملا اڑتی چڑیا کے پر گن سکتے ہیں لیکن سب سے زیادہ نگرانی زدہ بارڈر ہونے کے باوجود یہ خطرناک بارڈر نہیں ہے۔ یہ اعزاز صرف کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر کے پاس ہے جسے عرف عام میں کنٹرول لائن کہا جاتا ہے۔ جہاں ایک خاردار تار کے دونوں جانب جنوبی ایشیا کی دو مضبوط افواج پاکستان اور بھارت آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں.
باقی دنیا میں دو طرح کی سرحدیں ہوتی ہیں۔ ایک زمینی اور دوسری بحری۔۔۔مگر اسی دنیا میں موجود پاکستان اور بھارت کے درمیان پانچ اقسام کی سرحدی تقسیم ہے۔مغرب سے مشرق کی جانب ہوتی ہوئی سمندری حدودسرکریک سے بین الاقومی سرحد میں بدل جاتی ہے اور پھر یہی بین الاقومی سرحد پاکستان کے علاقے سیالکوٹ اور گجرات کو بھارت کے زیر انتظام جموں سے الگ کرنے کے لیے ورکنگ بائونڈری ہو جاتی ہے۔ اس سے اوپر جنوبی کشمیر، وادی اور کرگل کو پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے الگ کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول میں بدل جاتی ہے۔(لائن آف کنٹرول1971 تک سیز فائر لائن کہلاتی رہی۔ 1971 میں جب مشرقی محاذ کی لڑائی مغربی محاذ تک پھیل گئی تو دونوں افواج نے سیز فائر لائن کی حثیت کو تبدیل کرنے میں پیش قدمی کی۔جس کے بعد 1972 میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان شملہ معاہدہ ہوا جس میں سیز فائر لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا)اور پھر سیاچن گلیشئر تک پہنچتے پہنچتے واضح حد بندی نہ ہونے کے سبب لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہلانے لگتی ہے۔تقریبا 29سو کلومیٹر طویل فولاد زدہ پاک بھار ت سرحدی گورکھ دھندے کو خلا میں موجود ہر معقول مصنوعی سیارہ ، سیاہ رات کے دل کو چیرتی روشن لکیر کے طور پر دیکھ سکتا ہے(پاک بھارت تعلقا ت میں غالبایہ واحد روشن لکیر ہے)۔
کہنے کو تو یہ ایک لکیر اور انگریزی کے دو لفظوں کا مجوعہ ہے لیکن ان دو لفظو ں میں انسانیت کو درپیش المیوں ، المناک داستانوں اوردکھ و فراق کاایک جہاں آباد ہے۔ یہ مشکلات اور مسافتوں کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک کہانی ہے جو گزشتہ 70برسوں سے رقم ہو تی چلی جا رہی ہے اور مستقبل قریب میں بھی یہ آخری موڑ مڑتی نظر نہیں آتی۔یہ لکیر صرف ایک قطعہ زمین اور اس پر بسنے والے انسانوں کو ہی تقسیم نہیں کرتی بلکہ یہ خونی رشتوں، انسانی جذبوں اور ملن ملاپ کے خوابوں کو بھی ایک نوکدار خنجر اور خاردار تار سے جدا کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔یہ خونی لکیر جب گرم ہوتی ہے توفائرنگ کا ایندھن صرف کشمیری ہی بنتے ہیں۔ بھارتی فوج تاک تاک کر کشمیریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ۔۔گھر ماتم کدے بن گئے ہیں، آئے روز شہادتیں ہو رہی ہیں،کھڑی فصلیں، مویشی ،دکانیں سب کچھ گولہ باری کی زد میں ہے۔سیز فائر لاین پر سول آبادی، مسافر گاڑیوں اور ایمبولینسز پر حملے بھارت کی بد حواسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ایل او سی سے متصل 11انتخابی حلقوں(پاکستان کے زیر انتظام)میں زندگی کی اذیت کاٹنے والے تقریبا 10لاکھ انسانوں کا یہی المیہ ہے اور اس پار کتنے حلقے متاثر ہوتے ہیں اس کی صحیح تعدا کنفرم نہیں ہو سکی ہے۔
کہیں ہمارا خوبرو سرفراز اور انضمام جو محنت مزدوری کرکے اپنے کنبے کا پیٹ پالتے تھے ، مزدوری کے دوران ہی اپنی غلامی کا کفارہ ادا کرتے ہوئے انڈین آرمی کی گولی سینے پر کھا کر جام شہادت نوش کر جاتے ہیں تو کہیں کھوئی رٹہ سیکٹر میں اسی محکوم قوم کا نو سالہ آیان بھارتی فوج کی گولی کا نشانہ بن کر اپنی مجبور قوم کی بے بسی کے نوحے پڑھتا ہوا اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔مگر ہمارے ملک کی نام نہاد سول سوسائیٹیز، این جی اوز، انجمن ہلال احمراور اقوام متحدہ کے مختلف ادارے خاموش تماشائی ہیں۔ متاثرین کے لیے فوری ریلیف نہیں، زخمیوں کے لیے فوری طبی امداد نہیں، الیکشنز میں وفاقی حکومت کی طرف سے ایئر ایمبولینسز کا ودعدہ کیا گیا تھا ۔ ایئر ایمبولینسز کے استعمال کا اس سے بہتر کوئی موقع نہیں۔ متاثرین کو فوری ریلیف پہنچانا حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے لیکن حکومتی نمائندے سو رہے ہیں۔ حکومتی عدم توجہی کی بنا پر جو لوگ فوری طبی امداد نہ ہونے کے باعث زندگی ک بازیاں ہار رہے ہیں۔ ان کا خون ان حکمرانوں کی گردنوں پر ہے جو حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر قومی وسائل پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھارتی گولہ باری کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جوابی کاروائی کرتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے رکن انجینئر رشید نے بھی کہا ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے کشمیریوں کا ہمدرد رہا ہے لیکن پاکستانی فوج کو گولہ باری کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ انجینئر رشید کی بات بڑی حد تک درست بھی ہے کیونکہ بھارتی فوج تو جان بوجھ کر مقبوضہ علاقے کی سویلین آبادی کو ہیومین شیلڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ان کے لیے کشمیر کے ایک عام شہری کی شہادت ایک باغی کی ہی موت ہے ۔ بہرحال اس سنگین صورت حال میں نقصان صرف دونوں اطراف کے کشمیریوں کا ہی ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے یہ دونوں ممالک اپنے تعلقات کو معمو ل پر لاتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائیں کیونکہ حق خود ارادیت کی آواز اب محض کہانیوں میں نہیں بلکہ کشمیریوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہیاور دونوں ممالک اگر تعلقا ت معمول پر نہیں لانا چاہتے تو نہ لائیں مگر لائن آف کنٹرول پر 2002 میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے سرحد پر آگ اگلنے سے باز رہیں کیونکہ سیز فائرلائن کے باسی جینا چاہتے ہیں۔ وہ امن چاہتے ہیں کیونکہ وہ اب مزید اپنے بچوں کے جوان لاشیں اٹھانے کی نہ تو سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی آنے والی نسلوں کو ایک اندھی جنگ کی سنگین تاریکیوں میں دھکیلنا چاہتے ہیں.ہر بار یہی سننے میں ملتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر دشمن کی بلا اشتعال فائرنگ سے اتنے بے گناہ سویلین ہلاک اگر یہ بلا اشتعا ل ہے تو پھر اشتعال انگیز فائرنگ کیسے ہوتی ہے ذرا سوچیئے اور پھر کانپئے۔