لاہور قلندرز کیسے فائنل میں پہنچ سکتی ہے؟

پہلے ہار، پھر شکست، پھر ناکام، پھر مات اور پھر چِت، یہ ہے کہانی لاہور قلندرز کی اب تک کی پی ایس ایل تھری کے سفر کی۔

آپ سوچ رہے ہوں گے اس میں ”نیا“ کیا؟ کیوں کہ پہلی پاکستان سپر لیگ میں بھی لاہور قلندرز پانچ ٹیموں میں آخری نمبر پر آئی دوسری میں بھی یہی صورتحال ہوئی لیکن اب تیسری پی ایس ایل میں حالت اور پتلی ہے کیوں کہ پوزیشن اور نیچے یعنی چھٹے نمبر پر چلی گئی ہے۔

پانچ میچز سب میں ناکامی، تمام حربے، تمام آرڈر، تمام فارمولے ناکام ہوچکے ہیں۔لاہور قلندرز کے علاوہ تمام ٹیمیں کم سے کم تین تین میچز جیت چکی ہیں۔ باقی تمام پانچ ٹیموں کے پوائنٹس 6 یا اس سے زیادہ ہیں۔شاید اب لاہور قلندرز کے چاہنے والوں کی بھی سب امیدیں ختم ہوچکی ہیں لیکن یہی امیدیں ختم ہونا لاہور قلندرز کے لیے ” سنہری موقع “ بن سکتا ہےکیوں کہ اب اس ٹیم پر اتنی تنقید ہوچکی ہے کہ اس پر ”پریشر“ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

 

 دوسری طرف ٹیم چننے جائیں تو لگتا ہے اس اسکواڈ میں بیٹس مین ہی نہیں۔ٹیم کی بیٹنگ لائن تیز اور اچھی ابتداء کے بعد پتوں کی طرح بکھر جاتی ہے۔لیکن یہ ”کمزور“ ٹیم 1992کی ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ٹیم بن سکتی ہے ۔وہی ٹیم جس کے پاس شاید 11 کھلاڑی ہی تھے۔

سعید انور اور وقار یونس تو ورلڈ کپ سے پہلے ہی ان فٹ ہوچکے تھے ۔مکمل اسکواڈ میں سے زاہد فضل،وسیم حیدر اور اقبال سکندر کے نام اب شاید ہی کسی کو یاد ہوں۔ٹیم شروع میں ہی اتنے میچز ہار گئی تھی کے سب کی امیدیں ختم ہوگئی لیکن اس کے بعد اچانک جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

لاہور قلندرز کی ٹیم کا بھی یہی حال ہے۔آسٹریلوی کرس لِن لِیگ سے پہلے ہی ان فٹ ہوگئے، چھکوں اور چوکوں کے لیے مشہور لِن پی ایس ایل کے مہنگے ترین کھلاڑی بھی تھے ۔ باقی اسکواڈ میں بلے باز کم اور بالرز زیادہ نکلے اور تو اور عمر اکمل اور میک کولم کی موجودگی میں دنیش رام دین اور گلریز صدف کو بھی بحیثیت وکٹ کیپر لیا گیا تھا۔بعد میں کیمرون ڈیلپورٹ کو بھی ایمرجنسی میں جنوبی افریقا واپس جانا پڑا۔

اب باقی ٹیم کا یہ حال ہے کہ ابھی تک کوئی ایک بیٹس مین بھی پورے پانچ میچز کے دوران اپنی ففٹی مکمل نہیں کرسکا۔ٹیم کے لیے مڈل آرڈر بالکل کام نہیں کر رہا عمر اکمل نے پانچ میچز میں صرف57 رنز بنائے اور ابھی تک ایک میچ میں بھی چھکا نہیں لگایا( اس میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلے جانے والا میچ کے سپر اوور کا چھکا شامل نہیں)۔

 

 دوسری طرف سہیل اختر نے اتنے ہی میچز میں صرف 66 رنز اسکور کیے ہیں۔لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ٹیم کے باقی اسکواڈ کو دیکھتے ہوئے ان دونوں کھلاڑیوں کو باہر بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ان دونوں کھلاڑیوں کو بھی ٹیم مینجمنٹ کے اعتماد پر کم از کم اب پورا اترنا ہوگا۔اور ٹیم مینجمنٹ کو بھی خاص طور پر عمر اکمل کی پوزیشن سے چھیڑ چھاڑ ختم کرنی ہوگی۔

ٹیم مینجمنٹ کا ایک اور غلط فیصلہ عمر اکمل اور میک کولم کی موجودگی میں گلریز صدف اور دنیش رام دین کو میچ کھلانا تھا۔گلریز نے صرف ایک میچ کھیلا جس میں انھوں نے 31 گیندیں کھیل کر صرف 13رنز بنائے جس میں کوئی چھکا اور چوکا شامل نہیں ۔ رام دین تو گلریز سے بھی ایک ہاتھ آگے نکلے کیوں کہ انھوں نے تین میچز میں صرف 15رنز بنائے اور تینوں میچز میں کوئی باوٴنڈری اسکور کرنے میں ناکام رہے۔

 

ٹیم مینجمنٹ کو اب باقی میچز میں صرف عمر اکمل سے ہی وکٹ کیپینگ کرانی چاہیے کیوں کہ عمر نے پہلے میچ میں وکٹ کیپنگ کی تھی اور اسی میچ میں انھوں نے اب تک کا اپنا ہائی اسکور 31 بنایا تھا۔اس طرح ایک اور بیٹس مین کی بھی ٹیم میں جگہ بن پائے گی جس کی لاہور قلندرز کو بہت ضرورت ہے۔

فخر زمان کو ون ڈاؤن پر بھیجنا بھی ناکام سودا ثابت ہوا کیوں کہ انھوں نے اب تک اس پوزیشن پر تین میچز میں صرف 20 رن بنائے لیکن بطور اوپنر انھوں نے 79 بنائے۔ان کے ساتھ نارائن کو ہی بھیجنا ہوگا کیوں کہ نارائن کی بیٹنگ کا صرف پاور پلے میں فائدہ ہوسکتا ہے۔

میک کولم کو ون ڈاؤن پر آکر وہ اننگ کھیلنی پڑے گی جو انھوں نے اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف کھیلی تھی۔کیوں کہ میک کولم ہی ایک بیٹس مین ہیں جو بطور کپتان اور دلیر بیٹس مین اپنی بیٹنگ کو ایڈ جسٹ کرسکتے ہیں۔ باقی پوری ٹیم ٹی ٹوینٹی کھیلے لیکن میک کولم کو ون ڈے کی طرح اپنی اننگ تشکیل دینی ہوگی۔ 

آٹھویں اوور سے پہلے اگر بیٹنگ آئے تو چوتھے پر آغا سلمان اور پانچویں پر عمر اکمل کو بھیجنا چاہیے۔دسویں اوور کے بعد اگر یہی صورتحال ہو تو عمر اکمل کو چوتھے نمبر پر بھیجنا چاہیے۔ چھٹے نمبر پر سہیل اختر کو کھلانا چاہیے جنھیں کم از کم اب پوری شاٹس کھیلنی چاہیے۔ساتویں پر عامر یامین اور آٹھویں پر سلمان ارشاد کو کھلانا چاہیے ،سلمان ارشاد بڑی ہٹس لگا سکتے ہیں ان سے بھرپور پریکٹس بھی کروائی جانی چاہیے اور ساتھ میں بالنگ میں نیا بال بھی انہی کو دینا چاہیے۔

 

نویں پوزیشن پر کائل ایبٹ اور دسویں پر یاسر شاہ کا نمبر آتا ہے۔ گیارہویں پلیئر کے لیے لاہور کے پاس آپشن کھلا ہے کہ وہ کس غیر ملکی کھلاڑی کو چانس دیتا ہے۔سہیل خان کافی مہنگے بھی ثابت ہوئے ہیں اور جس طرح انھوں نے پچھلے میچ میں عمر اکمل کے لیے اپنی وکٹ کی قربانی نہیں دی انھیں باہر بٹھانا ہی بہتر اورصحیح پیغام ہوگا۔

اگر لاہور قلندرز کے کھلاڑی آج سے ہی جاگ گئے تو سمجھیں دیر نہیں ہوئی کیوں کہ ان کا آج سامنا ایونٹ کی دوسری کمزور ترین ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ سے ہوگا جو شاید کاغذ وں اور پوائنٹس ٹیبل پر صرف لاہور سے ہی اچھی ہے۔اسلام آباد یونائیٹڈ کے بھی رومان رئیس اور آندرے رسل اَن فٹ ہیں، ان کی بیٹنگ لائن کا آرڈر بھی لاہور کی طرح بگڑا ہوا ہے۔اور یہی وہ ٹیم ہے جس کا اور لاہور قلندرز کا میچ ٹائی ہوا تھا اور فیصلہ پر سپر اوور میں ہوا تھا۔لیکن آج آندرے رسل کی غیر موجودگی سے بھی اسلام آباد والوں کو بہت فرق پڑے گا ۔

تو بس اب کیا ہوا کیوں ہوا کیسے ہوا کی سوچ چھوڑ کر بس جتنا ہے جیسا ہے کھیلنے اور جیتنے کی سوچ سے میدان میں اترنا ہوگا اور بہت کچھ کرنا ہوگا،ورنہ اس بار بھی لاہور آخری نمبر پر اور ٹیم کے تمام کھلاڑیوں سے مشہور مکمل جان لڑانے والے اور ہمت نہ ہارنے والے فواد رانا ہی رہیں گے۔۔۔

نوٹ:

میدان میں کھیلنے والا ہر کھلاڑی اُس میچ پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہتر ہے۔

میچ یا کھلاڑی پر رائے یا تبصرہ صرف ایک فرد کاتجزیہ، زاویہ یا رائے ہوسکتی ہے جو آپ یا اکثریت کے لیے غلط یا صحیح یا مختلف ہوسکتی ہے۔

غلطیاں کھلاڑیوں سے امپائر سے یا لکھنے والوں سے سب سے ہوسکتی ہیں،آپ بھی غلطی دیکھیں تو نشاندہی کریں