بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی

بھارتی معاشرے میں انتہا پسندی کا رجحان بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس تشویشناک صورتحال کے صحیح ادراک کیلئے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کے زیر اہتمام اس موضوع پر ایک سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں نامور شخصیات نے شرکت کی جن میں سفارتکار، ریسرچ اسکالرز، پروفیسرز، صحافی اور یونیورسٹی طلبا شامل تھے۔ راقم نے بھی اس سیمینار میں ایک مقالہ پڑھا اور ایک سیشن کی صدرات کا موقع ملا۔ مقالے کا عنوان تھا ہندوتوا: آغاز، تاریخ اور فلسفہ۔ ہم یہاں مختصرا اس مقالے میں پیش کی گئیں معروضات پیش کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے بھارت پر نو صدیوں تک حکومت کی تھی۔ مسلمان حکمرانوں کا مقامی آبادی کے رہن سہن کی طرف عمومی رویہ عدم مداخلت کا تھا۔ تاریخ میں ہمیں شاذ و نادر کوئی واقعہ ملے گا جو مسلمانوں اور ہندووں کے درمیان فسادات پر مشتمل ہو۔ اس کے برخلات تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ مقامی آبادی کو اپنے اقتدار میں شریک کیا اور انہیں فوج اور انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔ یہ اسی باہمی اتحاد کا نتیجہ تھا کہ جنگ آزادی ہندو اور مسلمان نے مل کر لڑی۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں میں تقسیم، تفریق اور نفرت پھیلانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی اور اس کیلئے اپنے بہترین دماغوں کو استعمال کیا۔ ہندو کا لفظ مسلمانوں کا دیا ہوا ہے۔ عربوں نے ہند کے حوالے سے یہاں کے باسیوں کو ہندو کہنا شروع کیا۔ بعد ازاں شمال مغرب سے آنے والوں نے بھی اس اصطلاح کو جاری رکھا۔ ہندو سے کسی مذہبی وابستگی کے معنی نہیں نکلتے تھے۔ پھر یہاں پھیلے ہوئے عقائد اور مذہبی رسومات اس قدر متنوع تھیں جن کا کوئی ایک لفظ یا اصطلاح احاطہ نہیں کر سکتی تھی۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقابلے میں ہندومت کسی اکائی اور وحدت کو مقابلتا پیش نہیں کرسکتا تھا۔ لیکن انگریز کے زرخیز ذہن نے یہ اکائی اور وحدت پیدا کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ انگریزی حکومت، نئی تعلیم اور علوم کی آمد اور دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں سے متعلق معلومات تک رسائی نے ہندو اکابرین نے میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ بھی قومیات کی عمارت اپنے لئے تعمیر کریں۔ یہاں بھی اقدار مشترکہ کی کھوج لگانے کی کوششیں شروع ہوئیں اور جب ان کی عدم موجودگی کا علم ہوا تو خیالی عمارات کی تعمیر کی گئی جس کی بنیاد حقائق سے ہٹ کر کہانیوں اور افسانوں پر رکھی گئی۔1825میں راجہ رام موہن رائے نے برہمو سماج تحریک کی بنیاد رکھی، رائے ایک برہمن ہونے کے علاوہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم بھی تھے۔ اس تحریک کی بنیاد بت پرستی کے امتناع، ذات پات سے صاف، ستی کی رسم پر پابندی، تعلیم نسواں خدا اور بندے کے براہ راست تعلق پر مبنی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہندو مذہب کی اصل تعلیمات ہیں جو انہوں نے اپنشد (جو ویدوں کا حصہ کہی جاتی ہیں)کے مطالعہ سے اخذ کیے ہیں۔ لیکن اس تحریک کو عوامی تائید حاصل نہیں ہوئی گو کہ رائے کی شخصیت کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا اور انہوں نے بہت سارے لوگوں کو متاثر کیا۔جس شخصیت نے جدید ہندو سماج کی بنیاد رکھی وہ گجرات کے ایک برہمن، دیانندا سرسوتی (1824-84)ہیں۔ رائے کے مقابلے میں یہ انگریز کے ملازم نہیں تھے اور رائے کی طرح وہ مغرب کی ترقی سے مرعوب بھی نہیں تھے۔ وہ رائے سے ملے بھی تھے لیکن انہیں رائے کی انگریزوں سے قربت پر تحفظات تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغرب میں مادی ترقی ضرور ہوئی ہے لیکن وہ روحانی پسماندگی کا شکار ہے جو ہمارے پاس ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے مذہب کو سیکھنے اور اس میں کمال رکھنے والوں کے ساتھ رہ کر گزارا۔ انہیں سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ سرسوتی کی تحریک کی، جس کا مقامی رنگ بہت گہرا تھا، بنیاد: ویدوں کو سچائی کا واحد ذریعہ ماننا، امتناع بت پرستی، خدا کی دوبارہ پیدائش(مسیحیت کے برخلاف)کا انکار، ویدوں کے منتروں کا ورد، تعلیم نسواں کا فروغ، نابالغوں کی شادی اور تعدد ازواج پر پابندی اور سنسکرت اور ہندی زبان کا فروغ جیسی تعلیمات پر مبنی تھی۔ یقینا یہ دلپذیر اور موثر تعلیمات ہیں، لیکن ان کی مذہبی بنیاد کمزور بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا اپنے عقاید کو آسمانی تعلیمات پر مبنی گرداننے کیلئے ایک ایسی تاریخ وضع کی گئی جس کا حقیقی وجود کبھی نہیں رہا۔ مثلا ان کا کہنا ہے کہ آریہ قوم ہمیشہ سے یہاں آباد ہے اور صرف مسلمان ہی باہر سے آئے ہیں۔ اگر کچھ آریائی نسل کے لوگ دوسرے علاقوں میں پائے جاتے ہیں تو وہ یہاں سے ہجرت کرکے گئے ہیں۔ سنسکرت کو دنیا کی ساری زبانوں کی ماں کہتے ہیں وغیرہ۔ سرسوتی نے اپنی تحریک کا نام آریا(بمعنی معزز)سماج رکھا۔ اس کا تاسیسی اجلاس لاہور میں ہوا اور ابتدا میں اس کی سب سے زیادہ پذیرائی پنجاب میں ہوئی (جہاں کے خصوصی حالات کا ذکر بعد میں ہوگا)۔اس تحریک کے سرسری مطالعہ سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ اس کے مقاصد میں ایک طرف تو ہندو مذہب میں شیرازہ بندی کر کے وحدت پیدا کرنا اور دوسری جانب اسے یعنی ہندو مذہب کو اسلام اور عیسائیت کا ہم پلہ بنانا تھا۔ کیونکہ اس کے بغیر ہندومت کو وہ پذیرائی نہیں مل سکتی تھی جو اسلام اور عیسائیت کو مل رہی تھی۔ نئی دنیا کے خدوخال بھی یہ بتا رہے تھے کہ ہندو اگر متحدہ شکل میں سامنے نہ آئے تو انہیں وہ سیاسی برتری حاصل نہیں ہوگی جس کے وہ تعداد کے لحاظ سے حقدار ہیں۔اس تحریک کی تعلیمات کا سب سے قابل اعتراض نکتہ اس کا یہ کہنا تھا کہ جو آج ہندو نہیں ہے وہ ماضی میں تھا اور بعد میں اس نے اپنا مذہب بدل لیا یا زبردستی بدلوا دیا گیا۔ لہذا یہاں رہنے والے اصل میں سب ہندو ہیں اور جو نہیں ہیں انہیں ہندو بنانا پڑیگا۔ یہ نکتہ اس تحریک کی عوامی مقبولیت کا ذریعہ بن گیا جس نے اسکے پیروکاروں میں ایک زبردست تحرک پیدا کردیا۔ یہ شدھی کرن (نجس لوگوں کو صاف کرنا)تحریک کا آغاز تھا جس نے بڑی ذات کے ہندوں اور شودروں میں اور دیگر مذاہب کے درمیان شدید تناو اور فساد کی بنیاد رکھ دی۔ اس تحریک میں جوش خروش پیدا کرنا اور جارحانہ انداز میں اس پر عمل کرنے کا کام سرسوتی کے چیلوں گرو دت (1864-90)اور سوامی شردھانندا (1857-1926)نے انجام دیا جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔لیکن سرسوتی کو ہندو اکثریت والے صوبوں مثلا اتر پردیش اور بہار میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جہاں ذات پات کی تقسیم بہت سخت تھی اور بت پرستی سے لگاو بھی زیادہ تھا۔ علاوہ ازیں یہاں سودیشی (انگریزی اشیا کا بائیکاٹ)کی تحریک بھی جڑ پکڑ رہی تھی۔ جدید تعلیم سے آراستہ نئی قیادت جس کو برطانیہ جانے کا موقع بھی ملا تھا وہ ہندوستان کو ایک قوم کی نظر سے دیکھتا تھا اور اس کی آزادی کا خواہاں تھا تاکہ وہ اپنی قوم کو وہ ترقی دلاسکے جو یورپی ممالک نے حاصل کی تھی۔ کچھ عرصہ بعد کانگریس وجود میں آگئی اور اس نے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز اسی سوچ کے ساتھ کیا۔ آریا سماجیوں نے اپنی سبھائیں منظم کرلی تھیں لیکن ابھی ان میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ معاشرے کے ان اکابرین کا عزت اور احترام میں مقابلہ کر سکیں جو کانگریس کو یا بعد ازاں(باقی صفحہ6بقیہ نمبر1)
 مسلم لیگ کو بنانے والے تھے۔ لہذا یہ تمام سبھائی کانگریس کے ساتھ کام کرنے لگے گو کہ ان کی نظریاتی وابستگی آریہ سماج اور اس سے جڑی تنظیموں کیساتھ تھی۔
ہندو قومیت کا نعرہ کانگریس کے بھارتی قومیت کے نعرے کے سامنے ماند پڑگیا۔ لیکن سرسوتی اور اس کے نامور چیلوں نے ہندو سماج کو نظریاتی بنیاد فراہم کر دی تھی اور وہ پس منظر میں متوازی تحریک کے طور پر اپنا کام کرتی رہی۔ کانگریس نے اعلی تعلیم یافتہ طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا اور بہت جلد وہ ایک بڑی اور موثر تنظیم بن کر سامنے آئی۔
1885میں قائم ہونے والی کانگریس نے پر اعتماد انداز میں انگریز سرکار سے مغرب کی اپنی تخلیق کردہ اقدار اور نظریات کی بنیاد پر مقامی لوگوں کو ان کا حقِ حکمرانی اور انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کردیا۔ اس وقت کی کانگریسی قیادت میں دادا بھائی نوروجی، بال گنگا دھرتلک، بپن چندر پال، موتی لال نہرو اور گوپال کرشن گوکھلے جیسی شخصیات شامل تھیں۔ نوروجی، جو برطانوی دارالعوام کے پہلے ایشیائی رکن تھے، اور گوکھلے دونوں نے نوجوان اور کم عمر بیرسٹر محمد علی جناح پر زبردست اثرات چھوڑے تھے۔ یہ دونوں معتدل مزاج اور پر امن انتقال اقتدار کے خواہاں تھے۔ ان رہنمائوں کے نزدیک ہندوستانی قوم جغرافیائی حقیقت تھی۔ برطانوی ہند کے تمام لوگ اس قوم میں شامل تھے اور یہ قوم یہاں بسنے والوں کے عقائد، معاشرت اور رنگ و نسل پر مبنی نہیں تھی۔ بعد ازاں موہن داس کرم چند گاندھی بھی اس قافلے میں شامل ہوگئے۔ گوکھلے کی شخصیت نے گاندھی جی پر بھی اثرات مرتب کیے جن کو وہ اپنا سیاسی گرو کہا کرتے تھے۔کانگریس کو تحریک کے مقاصد اور انکے حصول کیلئے طریقہ کار کے تعین میں ابتدا اختلافات کا سامنا کرنا پڑا اور کچھ دیر کیلئے کئی لیڈرز پارٹی چھوڑ کر بھی چلے گئے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم نے مقامی سیاست کا نقشہ یکسر بدل دیا۔ کانگریس نے برطانوی سامراج پر دباو بڑھانے کیلئے سوراج (مقامی حکمرانی)کا نعرہ بلند کردیا۔
جنگ کے دوران اور اسکے خاتمے کے بعد برطانیہ اور فرانس کی مشرق وسطی میں جغرافیائی چیرہ دستیوں پر عالم اسلام اور خصوصا بھارتی مسلمانوں میں شدید بے چینی پھیل گئی۔ دوسری جانب بھارت میں اندرونی اتحاد کو قائم رکھنے کیلیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کا اس دور ابتلا میں ساتھ دیا جائے۔ لہذا خلافت تحریک کی قیادت خود گاندھی جی نے اٹھالی اور وہ ہندو مسلمان اتحاد کا بڑا نشان بن گئے لیکن اگر ایک جانب اس نے انگریز سرکار کو باہمی اتحاد کا پیغام دیا تو دوسری جانب ہندو قوم پرستوں کے ہاتھ نیا ہتھیار آگیا اور وہ جن خدشات کا پرچار کر رہے تھے اس کا ثبوت مہیا ہوگیا۔ ہندو قوم پرستوں کا موقف تھا کہ ہندوئوں کو اکڑیت کے باوجود انکے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے اور انگریز سرکار ایک جانب مسلمانوں کی پنجاب اور بنگال میں سرپرستی کرکے ہندووں کو کمزور کر رہی ہے اور دوسری جانب پہلے قسطنطنیہ کی خوشنودی کیلئے مسلمانوں پر نوازشیں ہوتی رہیں اور بعد ازاں جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ہندوئوں کو خلافت کے بچاو کی خاطر استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس تنقید سے بچاو کیلئے گاندھی جی نے ہندو سماج کے تمام نشانوں کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں کھلے عام استعمال کرنا شروع کردیا، جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے قابل قبول نہیں تھا۔ موتی لال اور جواہر لال نہرو باوجودیکہ ہندو قومیت کے برعکس ہندوستانی قومیت کے حامی تھے، لیکن ہندو اکثریت کو وہ اپنا حقیقی اثاثہ سمجھتے تھے۔ لہذا جب مسلمانوں اور سکھوں نے اس بنیاد پر سوچنا شروع کیا تو انہوں نے اس کیلئے ایک تحقیر آمیز اصطلاح فرقہ پرستی (communalism)کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ اس دوران انگریز سرکار نے پہلے پنجاب اور بعد ازاں بنگال میں مسلمانوں کو مقامی سطح پر جداگانہ انتخاب کا حق دے دیا جس پر کانگریس اور ہندو قوم پرست خاصے مشتعل ہوئے۔
ہندو سبھاوں کو منظم کرنے کا کام سرسوتی کے ہوتے ہوئے پنجاب میں شروع ہوگیا تھا۔ اب اس کی تعلیمات سے اتفاق نہ کرنے والے دیگر صوبوں میں بھی یہ کام شروع ہوگیا۔
جس شخصیت نے اس کام کو آگے بڑھایا وہ مدن موہن مالویہ (1861-1946)ہیں جو ذات کے برہمن تھے۔ انہوں نے سرسوتی کی تعلیمات کے برخلاف بت پرستی، ذات پات کا نظام برہمنوں کی مذہبی قیادت اور دیگر مقامی رسوم کو قائم رکھتے ہوئے سناتن دھرم کی بنیاد پر سبھاوں کو منظم کرنا شروع کردیا، جو انتہا پسند ہندو قومیت کا دوسرا رنگ تھا۔ یہ منظم تنظیمیں بہت جلد اتر پردیش، بہار، بنگال، مدھیہ پردیش، مہاراشڑرا اور دیگر علاقوں میں پھیل گئیں۔
سناتنی اور آریہ سماج کی علیحدہ تحریکوں نے باہمی اتحاد کیلئے ہندو مہاسبھا کی بنیاد رکھی جو متذکرہ سیاسی تبدیلیوں کے پس منظر میں ہندو مسلم فساد کی بنیاد بنی۔ درحقیقت سبھائی قیادت(خصوصا لالہ لاجپت رائے )1865-1928پنجاب سے اور مالویہ اتر پردیش سے)جو کبھی مغربی تہذیب اور کبھی عیسائی مذہب کے سرکاری سرپرستی میں فروغ پر پریشان رہی ہو گی، وہ بدلتے حالات میں دیکھ رہی تھی کہ حقیقی خطرہ اب مسلمانوں سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سبھاوں کے لیڈرز سیاسی طور پر کانگریس کے زیر سایہ کام کررہے تھے اگرچہ اس طور ان کا کوئی سیاسی وزن نہیں تھا۔
کانگریس کی برتری اسقدر ہمہ گیر تھی کہ اس میں انتہا پسند ہندو خیالات کو جگہ ملنا مشکل تھا، خصوصا جب گاندھی جی کی لیڈرشپ مضبوط ہوگئی۔
ہندو سبھا کی قیادت شمالی ہندوستان سے منتقل ہوکر مرکزی صوبوں برار اور بمبئی کی طرف آگئی، جہاں انتہا پسندی نسبتا زیادہ تھی۔ انہیں میں سے ایک کردار نائیک ساورکر (1883-1966)کا ہے جو مہاراشڑرا کے ایک برہمن گھرانہ سے تعلق رکھتا تھا اور انتہا پسند اور نام نہاد انقلابی طبعیت کا مالک تھا۔ اس نے طالب علمی کے دور میں لندن میں برطانوی سامراج کیخلاف تحریکوں کو شروع کیا اور انکی سرگرمیوں میں شریک رہا۔ اس کو جب گرفتار کیا گیا تو اس نے فرار کی کوشش کی جس کے بعد اسے دو دفعہ عمر قید کی سزا اور کالا پانی میں قید کیا گیا۔
بعد ازاں 1921میں اس نے معافی مانگی اور اس کی سزا میں تخفیف ہوئی لیکن یہ جنون کی حد تک مسلمان دشمن تھا۔ اے جی نورانی کی تازہ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قتل کی کئی وارداتوں میں بھی ملوث تھا۔ حتی کہ گاندھی جی کے قتل میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔ ساورکر کو ہندوتوا کا بانی کہا جاتا ہے۔
اس نے اپنی کتاب کا نام بھی ہندوتوا رکھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہندوئوں کا دیش رہا ہے اور وہ صرف مذہب پر مبنی نہیں ہے۔ مذہب اس کا صرف ایک حصہ ہے، جو اہم ترین بھی نہیں ہے۔ اسکے نزدیک سب سے اہم حصہ زمین ہے جسے وہ آریاورت کہتا ہے۔ اسکے بعد نسل کا حصہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہاں کے باسی ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان لوگوں کی جو ویدک ادوار سے یہاں مقیم ہیں۔ ہندوتوا کا تیسرا حصہ زبان ہے جس میں وہ سنسکرت کی بات تو ضرور کرتا ہے لیکن اس کو ہندی سے جوڑ دیتا ہے۔
اسکے ساتھ ہی اسکی وضع کردہ تثلیث مکمل ہوجاتی ہے: ہندو، ہندوستان اور ہندی۔ اس شناخت کے بعد وہ کہتا ہے کہ اس کسوٹی پر ہندو، سکھ اور بدھ مت کے ماننے والے پورا اترتے ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے یعنی مسلمان، عیسائی، یہودی اور پارسی وغیرہ یا تو وہ باہر سے آئے ہیں یا پھر انہوں نے اپنا دھرم بدلا ہے۔ گو بظاہر وہ تبدیلی مذہب کا مطالبہ نہیں کرتا لیکن وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگر یہ لوگ یہاں رہنا چاہتے ہوں تو انہیں اکثریت کی معاشرت اور ثقافت اور ان کے نشانات کو قبول کرنا ہوگا گو کہ ان کو نجی زندگی میں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہوگا۔ ساورکر کی متذکرہ تخلیق، اسی عمل کا حصہ ہے جس میں برطانوی سامراج کے بعد ہندو برہمن قیادت اپنے لوگوں کی عددی برتری کو قائم رکھنے کیلئے ایک ایسے مذہب کی متلاشی رہی ہے جو انکے بکھرے لوگوں کی شیرازہ بندی کرسکے۔ ساورکر نے وہ مذہب تخلیق کردیا۔ اس نے مغرب سے نسل پرستی پر مبنی قوم پرستی کے نظریات سے متاثر ہوکر ہندوئوں کیلئے بھی قومیت کا ایک بت تراش دیا۔
وہ خود کو لادینی کہتا تھا لیکن مسلمانوں کیخلاف اسکے جذبات معقولیت کی حد سے گزرے ہوئے تھے۔ اسکی شدت پسندی کی سب سے بڑی وجہ تحریک خلافت تھی اور گاندھی جی کی اس سے وابستگی اور بعد ازان تقسیم ہند پر انکی رضا مندی بس یہی دو باتیں انتہا پسند ہندوں کے نزدیک ناقابل معافی تھیں جس کا خمیازہ انہیں(گاندھی جی)اپنے قتل کی صورت میں بھگتنا پڑا۔