تحریک آزادی کشمیر ۔۔کے ایچ خورشید ۔۔سردار فتح محمد بریلوی
ایسے حالات میں جب تحریک آزادی کشمیر اپنے عروج پر ہے۔ بھارت نے ظلم و بربریت کی انتہاء کی ہوئی ہے اور پاکستان دشمن قوتیں اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لئے ایک ہو چکی ہیں۔ تحریک پاکستان اور آزادی کشمیر کے نامور رہنمائوں کی یاد میں دن منانا اور تجدید عہد کرنا ضروری ہے۔ تحریک آزادی کشمیر میں قائد کشمیر چوہدری غلام عباس کے بعد مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان ، سردار سکندر حیات خان ، کے ایچ خورشید اور سردار محمد ابراہیم خان کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔ تحریک پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ محترمہ فاطمہ جناح اور کے ایچ خورشید کے کردار کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ قائد اعظم نے خود فرمایا تھا کہ پاکستان بنانے میں میری بہن فاطمہ جناح اور میرے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید اور ٹائپ رائیٹر کا واضح کردار تھا۔ 1944ء میں دورہ کشمیر کے دوران قائد اعظم نے کے ، ایچ خورشید کو تقریبات میں مثبت سرگرمیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنانے کی پیشکش کی جو کہ کشمیریوں کے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اس وقت آپ ایم ایس ایف کے جنرل سیکرٹری تھے۔ 1946ء میں قائد اعظم کی قیادت میں وفد برطانیہ گیا تھا جس میں لیاقت علی خان ، ممتاز حسن اور کے ایچ خورشید شامل تھے۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے بھی قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے عزیزوں کو ملنے کشمیر گئے اور گرفتار کر لیے گئے۔ قائد اعظم نے بطور گورنر جنرل بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کو واحد خط اپنے ہاتھ سے لکھا کہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو رہا کر دیا جائے لیکن نہرو نے روایتی عیاری سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ کے ایچ خورشید کو بھارت نہیں حکومت کشمیر نے گرفتار کیا ہے۔ پھر 1949ء میں گلگت بلتستان کے گورنر گھنسارا سنگھ کے تبادلے میں رہا ہوئے ۔ پاکستان آنے کے بعد لاہور سے ہفت روزہ انگریزی اخبار گارڈین کا اجراء کیا۔ نوائے وقت کے بانی اور معروف صحافی حمید نظامی ، آغا شورش کشمیری ، فیض احمد فیض کے ساتھ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر کے رکن رہے، مادر ملت کے حکم پر اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن چلے گئے ۔ 1953ء میں بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ 1958ء میں حکومت آزاد کشمیر کے پبلسٹی ایڈوائزر مقرر ہوئے۔ 1957ء میں چوہدری غلام عباس کی قیادت میں سیز وائر لائن توڑنے کی کوشش بھی کی۔ دونوں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایوب خان کے مارشل لاء میں رہا کیا گیا۔ 1959ء میں چوہدری غلام عباس کی تجویز پر آزاد کشمیر کا صدر مقرر کیا گیا۔ 1962ء میں دوبارہ بی ڈی ممبر نظام کے تحت 5 سال کے لئے صدر آزاد کشمیر منتخب ہوئے۔ اس سال شیخ عبداللہ بھی پاکستان آئے انہوں نے اس دوران آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس چھوڑ کر نئی جماعت لبریشن لیگ بنائی۔ اور آزاد حکومت کو علیحدہ تسلیم کرنے کا دلفریب نعرہ دیا۔ لیکن اسے پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ کیونکہ لوگ قائد اعظم کے سیکرٹری سے ایسی توقع نہ رکھتے تھے۔ 1964ء میں حکومت پاکستان سے اختلاف کی وجہ سے آزاد کشمیر کی صدارت سے ہٹا دیا گیا۔ مادر ملت کے صدارتی انتخاب میں چیف پولنگ ایجنٹ مقرر ہوئے۔ انہوں نے بطور صدر آزاد کشمیر کشمیریوں کے تشخص کو ابھارا۔ عالمی سطح پر مسلح کشمیر کو اجاگر کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ بطور صدر آزاد کشمیر اپنا ذاتی مکان بھی نہ بنا سکے۔ زندگی کے آخری ایام میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہوئے 11مارچ 1988ء کو وزیر آباد کے مقام پر حادثے میں شہید ہو گئے۔ کے ایچ خورشید خوش اخلاق ، خوش لباس اور محفل کی جان تھے۔ بطور وکیل اور سیاسی رہنماء تمام مظلوم کشمیری ان کے پاس آتے تھے۔ کوئی فیس نہ بھی ادا کرے فری کیس لڑتے تھے اور خدمت بھی کرتے تھے۔ ایسے رہنماء صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ سردار فتح محمد کریلوی تاریخ ساز شخصیت تھے اپنی 90 سالہ زندگی میں 60 سال سے زیادہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کے بنیادی ، انسانی، سماجی حقوق کے حصول کی کوشش کی۔ کشمیری مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر 1927ء میں پولیس کی ملازمت چھوڑ دی اور ڈوگرہ حکمرانوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف میدان عمل میں نکلے۔ رئیس الحرار چوہدری غلام عباس کی قائم کردہ ینگ مسلم مین ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے جدوجہد شروع کی۔ ریاست پونچھ کے کنوینئر مقرر ہوئے۔ ڈوگرہ حکمرانوں کی طرف سے ظالمانہ ٹیکس کے خاتمے کے لئے تھکیالہ پراوا تحصیل مینڈھر اور پونچھ میں علم بغاوت بلند کیا۔ اپنے والد گرامی سردار فیروز خان کی قیادت میں بڑے جلسے میں سول نا فرمانی کا آغاز کیا۔ مہاراجہ کشمیر اور راجا پونچھ کی حکومت اور انتظامیہ کو دھچکا لگا۔ جس کے لئے مہاراجہ کو انگریزوں سے فوجی مدد طلب کرنا پڑی۔ آپ کے والد سردار فیروز خان کو جدوجہد کے جرم میں 10 سال قید بامشقت کی سزا دی گئی۔ 1930ء اور 1931ء کے دور میں چوہدری غلام عباس ، شیخ عبداللہ ، میر واعظ محمد یوسف اور دیگر رہنمائوں سے مل کر تحریک آزادی کشمیر کے سلسلے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1932ء میں چوہدری غلام عباس سے مل کر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے قیام میں کردار ادا کیا۔ 1944ء کے عام انتخاب میں پرجا سبھا کے لئے مسلم کانفرنس کے امیدوار کی حیثیت سے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ 1947ء تک طویل عرصہ کشمیر اسمبلی کے ممبر رہے۔ آپ قائد اعظم اور علامہ محمد اقبال سے متاثر تھے۔ اکثر رہنمائی لینے کے لئے علامہ اقبال کے پاس لاہور جایا کرتے تھے۔ 23مارچ 1940ء کو لاہور میں قائد اعظم کی صدارت میں ہونے والے تاریخ ساز اجلاس میں کشمیر کے وفد کے ساتھ شرکت کی۔ اور کشمیریوں کی نمائندگی کی۔ اس اجلاس میں تاریخی قرارداد ، قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ 1944ء میں قائد اعظم کے دورہ کشمیر کے دوران آپ نے ان کے حفاظتی دستے کے نگران کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ 19 جولائی 1947ء کو تاریخ ساز قرار داد الحاق پاکستان بھر پور اور جاندار کردار ادا کیا۔ کیونکہ سرینگر ، غازی ملت سردار ابراہیم خان کے گھر اجلاس سے 2 دن قبل قائد اعظم کی طرف سے متنازعہ خط سامنے لایا گیا۔ جس میں خود مختار کشمیر کا پیغام سامنے آیا۔ تو مسلم کانفرنس کے اکابرین کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ آپ نے سینکڑوں میل پیدل سفر کر کے جموں جیل میں چوہدری غلام عباس اور اے آر ساغر سے ملاقات کی اور قائد اعظم کے خط کے حوالے سے رہنمائی لی۔ چوہدری غلام عباس کی غیر موجودگی میں قائد مقام صدر نمائندگی کی۔ اور واپس سرینگر جا کر مجلس عاملہ کو پیغام پہنچا کر اختلافی امور حل کروائے۔ اور پھر متفقہ طور پر پاکستان سے الحاق کی تاریخی قرارداد منظور ہوئی جو کہ تحریک آزادی کی بنیاد ہے۔ 1947ء کے انقلاب میں تحریک آزادی کے سلسلے میں بنیادی ، جاندار کردار ادا کیا اور یہ خطہ کشمیر آزاد ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری اور دیگر مسائل کے ضمن میں بھر پور کوشش کی۔ اپنی زندگی میں اپنے بیٹے سردار سکندر حیات کو پہلی بار 1970ء کے انتخاب میں کھڑا کیا۔ شاندار کامیابی دلائی۔ بعد ازاں سالار جمہوریت سردار سکندر حیات نے میدان سیاست میں بے شمار کامیابیاں حاصل کیں۔ جس کے لئے علیحدہ اور جامعہ مضمون کی ضرورت ہے۔ آپ وزیر ، وزیر اعظم اور ریاست کے صدر بھی رہے۔ اب ان کے بیٹے سردار فاروق سکندر جناب وزیر اعظم راجا محمد فاروق حیدر کی کابینہ میں وزیر ہیں۔ تیسری نسل میدان عمل میں ہے۔ سردار فتح محمد اور سردار سکندر کی زندگی کھلی کتاب ہے۔ 15 مارچ کو ان کی برسی منائی جاتی ہے۔ تحریک آزادی کشمیر اور تعمیر ترقی کے حوالے سے جاندار کردار ادا کیا۔ نظریات اصولوں کی خاطر نہ مساعد حالات میں بھی ناقابل فراموش قربانیاں دیں۔ تحریک آزادی کشمیر ، الحاق پاکستان، سیاسی تشخص پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا۔