سردار فتح محمد خان کریلوی سے سردار سکندر حیات خان تک

انیسویںوبیسویں صدی نے کشمیر میں بے شمار نامور شخصیات پیدا کیں جن میں فہم و فراست اور جرأ ت بیباکی کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا۔ پونچھ کی سرزمین اس لحاظ سے کبھی بھی بانجھ نہیں رہی ہے آج کے گئے گذرے دور میں جب معاشرہ زوال و نحطاط کا شکار ہے مقابلتاً دیکھا جائے تو پونچھ آج بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے اگرچہ آج پونچھ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گذرتے ہوئے اپنی شناخت بتدریج کم کر رہا ہے اور ہم راولاکوٹ، باغ، سدھنوتی، پلندری اور حویلی کے اضلاح میں منقسم ہو چکے ہیں، اب تو ہجیرہ اور عباسپور کے اضلاع کی بھی تحریکیں شروع ہو چکی ہیں نہ جانے کہا ںتک ہم جا سکیں اور یہ'' نیشنل ازم'' پھیلنے کے بجائے سکڑتا جا رہا ہے۔ جب پونچھ کی دو دوتحصیلوں (مہنڈر اور حویلی) ، باغ اور سدھنوتی سے ایک ایک ممبر پرجا سبھا منتخب ہوتا تھا تو1934ء میں پرجا سبھا ( قانون ساز اسمبلی) کے قیام کے ساتھ جو پہلے الیکشن ہوئے تو مہنڈر اور حویلی سے سردار فتح محمد خان کریلوی اور خان محمد خان المعروف خانصاحب ممبران پرجا سبھا منتخب ہوئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ خان صاحب آرمی اور سردارفتح محمد خان کریلوی صاحب پولیس سے ریٹائرڈ ہو کر عملی سیاست میں آئے تھے اس وقت کی سیاست آج کی سیاست کی مانند نہ تھی اور حکمرانوں کیخلاف کلمہ ٔ حق بلند کرنا اتنا آسان نہ تھا جتناکہ آج ہے۔ سردار فتح محمد خان کریلوی پولیس میں کانسٹیبل سے ترقی کرتے ہوئے ہیڈ کانسٹیبل تک گئے پولیس ٹریننگ کالجپھلور (انڈیا) سے ترقیابی کا کورس نمایاں طور پر پاس کیا لیکن ڈوگرہ مہاراجہ کی داخلی پالیسیوں سے تنگ آکر سروس کو خیرباد کہہ دیا۔ اس وقت سروس کو خیرباد کہنا معمول نہ تھا غربت اور بے روزگاری اپنی جگہ لیکن ملازمت کا پیشہ عزت و توقیر کا موجب مانا جاتا تھا۔ کشمیر میں سیاسی بیداری کی ایک لہر جنم لے رہی تھی لیکن ابھی تک نہ تو پرجا سبھا کا قیام عمل میں آیا تھا اور نہ کوئی واضح کامیابی کی صورت نظر آرہی تھی البتہ برصغیر جنوبی ایشیا میں کانگریس اور مسلم لیگ کی راہیں جد ا ہوچکی تھیں ۔ سردار فتح محمد خان کریلوی مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کو قریب سے دیکھ رہے تھے آپ دوران ملازمت بھی موقع پا کر مسلمان سیاسی عمائدین کی تقریریں سننے ان کے جلسے جلوسوں میں شریک ہوتے ،سیّد عطا للہ شاہ بخاری ،مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حضرت علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کی شخصیت سے آپ متاثر تھے۔ آپکی برصغیر کی سیاست پر گہری نظر تھی اور اس کے ریاست پر پڑنے والے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔جس خطے سے آپ کا تعلق تھا یہ بہت دوردراز اور سنگلاخ پہاڑی سلسلے پر مشتمل تھا یہاں ڈوگرہ مہاراجہ کے مظالم کا کوئی نوٹس لینے والا نہ تھا لیکن آپ نے مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل کے حل کی جانب توجہ کی، آپ کا خاندان راجپوت ہونے کے باوجود ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف سینہ سپر تھا آپ کے والد کو ڈوگرہ کیخلاف بغاوت کرنے پر خطرناک قیدی قرار دیکر10سال قید بامشقت کی سزا دی گئی ان کو جیل میں چکی پیسنی پڑتی اور دریا سے بینگیوں پر پانی لانا پڑتا وہ اپنے حصے کی چکی بھی پیستے اور اپنے خاندان کے ایک بزرگ منصو خان کے حصے کی بھی چکی پیستے چونکہ وہ ضعیف و لاغر تھے ۔ سردار فیروز خان کا عدالت میں پکارا فیروز خان بت شکن کے نام سے ہوتا تھا ۔ سردار فتح محمد خان کریلوی نے جس ماحول میں پرورش پائی اس نے ان کے ذہن کو باغیانہ سا بنا دیا تھا اور وہ ان مظالم کا بدلہ چکانے کا عزم کیے ہوئے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے دوران ملازمت بھی ایسی ناروا پابندیوں کی اطاعت نہیں کی جو عوام دشمن ہوتی تھیں اور وہ ملازمت کے دوران بھی کمزوروں کا ساتھ دیتے اور طاقت ور کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے تھے۔آپ نے ریاستی قانون سو ررکھشا (حفاظت)کے تحت مسلمانوں بکروالوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اگر سور انسان پر یا ان کے پالتو مویشیوں پر حملہ آور ہو جائیںتو ان کو مارناجُرم نہیں بنتا۔ آپ نے ملازمت میں ناروا پابندیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے ملازمت  سے سبکدوش ہونامنظور کرلیا لیکن غلط اقدامات پر کمپرومائز نہ کیا۔ سردار فتح محمد خان کریلوی اپنی ذات میں ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے1934ء جنوری سے1947ء تک ممبر پرجا سبھا رہے، پرجا سبھا75ممبران پر مشتمل تھی اس میں سیاسی رہنما بھی تھے۔ سروسز کے لوگ بھی  ایکس آفیشیوممبر ہوتے تھے مختلف طبقات کے نمائندہ بھی لیکن کوئی ایک ممبر بھی ایسا نہیں ہوا جس نے اسقدر عروج دیکھا ہو کہ وہ ملازمت میں تھے توہیڈکانسٹیبل ہونے کے باوجود سپرنٹنڈنٹ پولیس پر بھاری ہوتے تھے سیاست میں قدم رکھا تو اپنے علاقے کے لوگوں کو سود خور کھتریوں سے آزادی دلوائی۔ مہاراجہ کا کوئی نمائندہ ان کی رضا مندی کے بغیر ان کے علاقے میںداخل نہیں ہو سکتا تھا آزادی کا پرچم بلند کیا تو اپنے علاقے کو ڈوگرہ کے چنگل سے آزاد کروا کر دم لیا یہ الگ بات ہے کہ آزاد شدہ مہنڈر بعد میں ہماری فوج کی نالائقی سے ہندوستانی افواج کے قبضے میں چلا گیا۔ عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک میں گوہر رحمان کا ساتھ دیا یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اس سے قبل حقوق ملکیت کی تحریک میں سردار فتح محمدخان کریلوی کے چچا سردار نوازش علیخان نے راولاکوٹ کھڑک کے رہنے والے سردار بہادر علی خان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ سردار فتح محمد خان کریلوی کی سیاسی زندگی کا کمال یہ تھا کہ وہ تمام طبقات کو ساتھ لیکر چلنے کے ہنر سے بخوبی آشنا تھے انہوں نے اپنے گائوں اور علاقے میں تمام برادریوں اور بالخصوص چھوٹی برادریوں کا ساتھ دیا ان کو شناخت دی اور ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ سیاست میں حصہ لیا تو باوجود یکہ شیخ عبداللہ کا ریاستی سیاست میں بڑا مقام تھا آپ نے چوہدری غلام عباس کو اپنا لیڈر بنا یااور ان کا تا زیست ساتھ دیا سوائے اس کے جب 1939ء میں مسلم کانفرنس کا ایک دھڑا قائم رکھا اور اس کو نیشنل کانفرنس میں ضم نہیں ہونے دیا اور پونچھ میں مسلم کانفرنس کا وجود برقراررکھا تاوقتیکہ1941ء میں جب دوبارہ مسلم کانفرنس کا احیاء ہوا۔ سردار فتح محمد خان کریلوی مسلسل 12سال تک پرجا سبھا کے ممبر رہے اور اسمبلی کا ریکارڈ شاہد ہے کہ آپ نے ہمیشہ عوامی مفادات کو ترجیح دی اور چھوٹے چھوٹے مسائل سے لیکر بڑے مسائل کو اسمبلی کے فورم پر اُٹھایا۔ آپ ایک راسخ العقیدہ اور نظریاتی مسلم لیگی تھے (مسلم کانفرنس توریاست جموں وکشمیر میں محض مسلم لیگ کے نظریات کی علمبردار تھی) آپ اکثر حضرت علامہ محمد اقبال سے راہنمائی لینے لاہور جاتے اور شاعر مشرق سے کشمیر کے بارے میں ارشادات اور خیالات سے مستفید ہوتے قائداعظم جب1944ء میں کشمیر کے دورے پر گئے اور قائد اعظم کے حفاظتی دستے کے قائد سردار فتح محمد خان کریلوی تھے فتح محمدخان کریلوی ایک مہم جوہانہ طبعیت کے مالک تھے مشکل سے مشکل ٹاسک آپ کے سپرد کیا جاتا تھا۔ شیخ عبداللہ کو پونچھ اور میرپور کے اضلاع میں آتے وقت حوصلہ نہ پڑتا تھا اس کے باوجود شیخ عبداللہ نے متعدد بار کریلوی صاحب کو خطوط لکھے اور ان کے درمیان خط و کتابت کا ریکارڈ بھی موجود ہے لیکن جب انہوں نے 1939ء میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں ضم کیا تو آپ نے اس کو سخت ناپسند کیا اور اس کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔1947ء کے بعد جب آزاد ریاست کا قیام عمل میں آیا تو وہ لوگ بھی منظر عام پر نمودار ہونا شروع ہو گئے جن کا تحریک آزادیٔ کشمیر میں معمولی کردار تھا اور حکومت کا حصہ بننا شروع ہو گئے لیکن سردار فتح محمد خان کریلوی نے کبھی بھی حکومت کا حصہ بننے کی خواہش نہیں کہ البتہ1968ء میں جب اسٹیٹ کونسل کے انتخابات ہوئے تو آپ نے  ان میں بھرپور حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی اس زمانے میں راقم گورنمنٹ کالج کوٹلی ، ہائی سکول کوٹلی میں طالبعلم تھا،مجھے سردار فتح محمد خان کریلوی کی تقاریر سننے اور انتخابی مہم دیکھنے کا موقع ملا اگرچہ میں اس وقت تاریخ سے واقف نہ تھا لیکن جسطرح بچے عموماً جلسے جلوسوں میں شامل ہوتے ہیں میں بھی شامل ہوتا رہا۔1970ء میں آپ سیاست سے عملاً کنارا کشی کرتے ہوئے اپنے بیٹے سردار سکندر حیات خان کو الیکشن کیلئے میدان میں اتارا یہ بڑا مشکل الیکشن تھا لیکن سردارسکندر حیات خان کو کامیابی ملی، اس سے قبل وہ بلدیاتی اور بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات میں حصہ لے چکے تھے۔ سردار فتح محمد خان کریلوی اپنے ہم عصر راہنمائوں میں سب سے زیادہ متحرک اور خوش نصیب شخص تھے کہ آپ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو یونین کونسل کے ممبر سے وزیر اعظم تک سیاسی منازل طے کرتے دیکھا یہ اعزاز ریاست جموں وکشمیر کے کسی سیاستدان کو نصیب نہیں ہوا۔ سردار سکندر حیات خان نہ صرف آزاد جموں وکشمیر میں ممبر اسمبلی، وزیر، وزاعظم( دوبار یعنی پورے دس سال ) رہے اور پانچ سال تک صدر رہے دوران صدارت جب آپ نے اپنا عرصہ صدارت ختم ہونے سے قبل مستعفی ہو کرمئی1996ء میں انتخابات میں حصہ لیا تو باوجودیکہ وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں ان کی شدید مخالفت کے باوجود صد ر منتخب ہو گئے لیکن پیپلز پارٹی نے آزادکشمیر میں برسر اقتدار آکر 2ماہ کے اندر اندر آپ کے خلاف عدم اعتماد کیا اگرچہ خفیہ رائے شماری ہوتی تو عدم اعتماد مشکل ہوتا اس لیے شو آف ہینڈ کے ذریعے آپ کو صدارت سے الگ کیا گیا اور آپ نے پانچ سال کے بعد پھر دوبارہ وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کیا اسوقت ملک میں مشرف کی حکومت تھی ۔ وہ خفیہ ایجنسیاں اور مسلم کانفرنس کی قیادت کی ریشہ دوانیوں کے باوجود وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔ سردار سکندر حیات خان پاکستان میں قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بھی رہے ، سردار سکندر حیات اپنے بزرگ سیاستدانوں سردار محمد ابراہیم خان ، کے ایچ خورشید، سردار عبدالقیوم خان کیساتھ ساتھ سیاست میں متحرک رہے اور ہمیشہ کامیابیوں سے ہم کنار ہوتے رہے۔ سردار فتح محمد خان کریلوی نے 15مارچ 1989ء کو داعی اجل کو لبیک کہا آپ نے آخری وقت تک اپنے کچے مکان میں رہائش رکھی اور عوام سے اپنے رشتے کو کمزور یا منقطع نہیں ہونے دیا۔ آپ کی نماز جنازہ میں صدر پاکستان غلام اسحاق خان سمیت پاکستان کے راہنمائوں نے، عساکر پاکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ آپ نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی کوئی نامزدگی قبول نہیں کی اور نہ کبھی گرفتار ہوئے، آپ کی سیاسی، عسکری، سماجی جدوجہد ہماری تاریخ ملّی کا شاندار باب ہے جس پر نہ صرف ان کی اولاد ، خاندان، علاقہ بلکہ پوری ریاست کو فخر ہے اور سردار سکندر حیات خان نے اس جدو جہد اور میراث کوکو چار چاند لگانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا۔ آج وہ86سال کی دہلیز پر کھڑے جہاں اپنے باپ کے کارہائے نمایاں پر فخر کرتے ہیںاور اپنی سیاسی زندگی کی تمام تر کامیابیوں اور عزت و افتخار کے باوجود اپنے آپ کو اپنے والد محترم کا عشر عشیر بھی نہیں سمجھتے ۔سردار سکندر حیات خان کی زندگی بھی کشمیریوں کیلئے قابل فخر اور باعث تقلید ہے اور یہ اعزاز بھی اس خاندان اور شخصیت کا طرہ امتیاز ہے کہ پاکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل سے لے کر پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینئر نائب صدر تک کا سفر آپ نے جس کمال سے طے کیا ہے ہم سب کیلئے بھی باعثِ عزت و توقیرہے۔سردارفتح محمد خان کریلوی کا خاندان نہ صرف1925ء سے ریاستی سیاست میں اہم مقام کا حامل چلا آرہا ہے بلکہ اگر سردار فیروز خان کی جدوجہد اور سردار نوازش علیخان کی حقوق ملکیت کی تحریک کے ادوار کو شامل کیا جائے تو یہ1895ء سے شروع ہوتی ہے اور برصغیر پاک و ہند میں اتنی طویل سیاسی تاریخ کسی خاندان کو حاصل نہیں ہے۔آج جبکہ فتح پور میں سردار فتح محمد خان کریلوی کی برسی کے موقع پر ایک بڑا اجتماع ہو رہا ہے جس میںوزیر اعظم آزادجموں وکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان سمیت دیگر حکومتی وزرائ، مسلم لیگی عہدیداران و کارکنان وعوام علاقہ اور آزادجموں وکشمیر اور مہاجرین جموں وکشمیر مقیم پاکستان کے نمائندے مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرنے جمع ہیں وہاں وہ سردار سکندر حیات خان کے کارہائے نمایاںپر انہیں بھی خراج تحسین پیش کریں گے۔ سردار سکندر حیات خان خودبنفس نفیس اور سابق ممبر آزادجموں وکشمیر کونسل و سابق وزیر حکومت سردار محمد نعیم خان، وزیر حکومت سردار فاروق سکندر اور خاندان کے دیگر افراد برسی اور سیاسی اجتماع کا اہتمام اس جذبے اور لگن سے تسلسل کیساتھ کر رہے ہیں کہ سردار فتح محمد خان کریلوی نے جس جدو جہد اور مشن کا آغاز کیا تھا اسکو جاری و ساری رکھا جائیگا۔ آج آزادجموں وکشمیر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بدلتی ہوئی عالمی و قومی صورت حال کے تناظر میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو نئے انداز میں مہمیز دی جائے اور سردار فتح محمد خان کریلوی کی جلائی ہوئی شمع کو فروزاں رکھا جائے ۔

٭٭٭٭٭٭٭