بھارتی مظالم سے ''آزادی'' تک
حسین و جمیل کھیتوں ، بہتے دریائوں، چہکتے پرندوں، بہتی آبشاروں، کِھلتے پھولوں کی خوشبو سے مہکتی وادی ، جسے لوگ ''جنتِ نظیر'' کہتے ہیں، وہ ''کشمیر'' ہی ہے جہاں کے دریا اسوقت معصوم کشمیریوں کے مقدس لہو سے بہتے ہیں۔ کھیت خون سے سیراب ہیں۔پرندے مارٹر گولوں کی آوازوں سے اپنے گھونسلے چھوڑ گئے۔پھول بھی بھارتی بربریت سے مسل دئیے گئے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے کہا تھا کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔یعنی اگر کشمیر کو حتم کر دیا جاے تو پاکستان خود بحود صفہ ہستی سے مٹ جائے گا۔لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ اس شہ رگ پر آئے روز حملے ہورہے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔کشمیر کی تاریخ کے اوراق پرنظرثانی کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ دنیا میںوہ بدقسمت ریاست ہے۔جسے تھوڑے سے مفاد کے لیے نہ صرف اس جنت کی نظیرکوبلکہ اس میں رہنے والے انسانوںکے حقوق کی پامالی کر کے75لاکھ نانک شاہی میںغلامی کی زنجیروں میں جھکڑا گیا۔کشمیر کا نام سنتے ہی عالم ِدنیاکے انسانوں کو دو چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ایک کشمیر کی خوب صورتی اور دوسری کشمیر میں انڈین شیطانی طاقتوں کے تاحال ہونے والے مظالم کی انتہا۔ آزادکشمیر کے سرحدی علاقہ جات کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں جن کو بہتر کرنے کے لیے خاص اقدامات کی ضرورت ہے۔اقوام ِمتحدہ قراردار1947 اور کراچی معاہدہ1949کے بعددونوں طرف سے فائر کو روکنے کا معاہد ہ کیا گیا جس کو سیز فائر کا نام دیا گیا۔شملہ معائدہ1972میں انڈین وزیرِاعظم اندراگاندھی اور پاکستانی صدر زوالفقار علی بھٹو شہیدنے سیز فائر لائن کولائن آف کنٹرول کا نام دیا۔اگر آزاد کشمیر کی بات کی جائے تو اس میںسرحدی علاقوں (سیز فائر لائن کے اطراف)میں بسنے والے کشمیری اپنی زندگی کسی قیامت سے کم نہیں گزار رہے آ ئے روزگولہ باری جس سے نہ صرف ہر روزدونوں اطراف کے کشمیری بلکہ پاک افواج کے ہردل عزیز نوجوان اپنے پیاروں کو چھوڑ کراپنے خالقِ حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہی ہے۔سیز فائر لائن کی اطراف پر بسنے والوں کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات نہیں ہیں ، کوئی بنکرز نہیں ہیں۔اگر صرف بجلی کی ہی بات کی جائے تو وہ ایک نایاب چیز لگتی ہے۔ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے سیز فائر لائن کی اطراف کے لوگ مجبوری میں دشمن کے نشانے پراپنی زندگی گزار رہی ہے۔جن کے پاس کچھ سرمایا ہے وہ اس لیے سیز فائر لائن سے نہیںجاتے کہ ان کے خاندان والے یہاں پر رہ رہے ہیں ۔اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جا نا بہت ہی ناممکن سی صورتحال ہے۔حکومت مرنے والے کشمیریوںکو چند رقم تو دے دیتی ہے لیکن ان کے لیے کوئی محفوظ جگہ کا بندوبست نہیں کرتی۔حکومت اگر ان بے رحم کشمیریوں کے لیے کوئی محفوظ جگہ مہیا کر دے تو یہ حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔740 کلومیٹرطویل سیز فائر لائن میں کسی جگہ بھی سکون نہیں ہے۔ہر طرف قیامت کا سا منظر ہے۔سکولوںمیں بچے پڑھائی کے لیے جاتے تو ہیں لیکن ان کی مائیں پورا دن دعائیں کرتی رہتی ہیں کہ کب ان کے لال خیریت سے گھر پہنچیں گے ۔یہاں کا تعلیمی نظام بری طرح سے متاثر ہے ۔یہ ننے کل کے ملکی محافظ اس گولی کا نشانہ بنتے ہیںجس کا ان کے ذہن و گمان میںبھی نہیںہوتا۔لوگوں کے دلوںمیں ایک دہشت کا سماںہے ۔ہر شخص ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔حاص طور پر وہ لوگ جو روزگار کے سلسلے میں بیرونِ ملک گئے ہیں وہ پریشانی کی وجہ سے نیند اور سکون سے محروم ہوتے ہیںکہ کب گھر سے بری خبر ان کے کانوںتک پہنچے گی۔معاشی طور پرکشمیر کاانحصار زراعت اورسیاحوں پر ہے لیکن ان سنگین حالات میں نہ تو زراعت کا نظام بہتر ہے اور نہ ہی سیاح کشمیر کا رخ کرتے ہیں۔ کشمیر میں ہونے والے لازوال مظالم کا سن سن کر شائد سماج کے کان پک گئے ہیں شائد اسی وجہ سے کوئی انسانیت کے دشمن انڈین فورسز کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے۔ ایک پل کیلئے رُکیے تو سہی اور سوچئے اگر یہی مظالم''کشمیریوں'' کے بجائے کسی اور پر ہوں تواُن کے احساسات وجذبات کیا ہوںگے۔اپنی زبان سے آواز اُٹھانا تو ایمان کا ایک درجہ ہے۔ اللہ نے تو ہر انسان کو آزاد پیدا کیا ہے تو پھر بہلا ایک انسان کسی دوسرے انسان کا غلام کیسے ہوسکتا ہے یا انسان کو کتنے عرصے تک غلام رکھا جاسکتا ہے۔ جموں کشمیر کے رہنے والے تو عالمی سطح پر تسلیم شدہ پیدائشی حق، حقِ خودارادیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔کیااپنے اس بنیادی حق، آزادی کی بات کرنا جرم ہے۔ اگر جان سے پیاری ''آزادی '' مانگنا جرم ہے تو شائد یہی وجہ ہے کہ یہ جرم گذشتہ ایک عرصہ سے جموں کشمیر کے لوگ کررہے ہیں۔ آخر بھارت اس بات کو کیوں نہیں سمجھتا کہ اُس نے پیلیٹ گنز سے لاتعدادکشمیریوں کی بصارت کو تو چھینا لیکن بصیرت کو تو نہیں۔ طاقت کے بل پر بھارت جنتِ نظیر کو تو دبائے ہوئے ہے لیکن کشمیریوں کے دلوں اور آواز کو تو نہیں دبا سکتا۔ کہنے کو تو شائد یہ الفاظ ہیں لیکن بھارتی مظالم نے عورتوں کو بیوہ کرڈالا، لاکھوں بچوں کو یتیم کیا، بہنوں کی عصمت دری کی گئی، بوڑھوں کے سامنے اُن کی اُمیدوں کے محور و مرکز نوجوانوں کو زبح کیا گیا۔ لاکھوں مائوں کے راج دولارے آج تک غائب ہیں۔کشمیری اس ''آزادی'' کی بے انتہا قیمت چکا رہے ہیں، صرف اس امید نہیں بلکہ یقین سے کہ ان کی ان گنت و لاتعداد قربانیاں ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائیں گی اور ''آزادی'' کشمیریوں کا مقدر ہوگی۔ کشمیری بھارت کو اپنے وعدوں اور اقوامِ متحدہ کو اپنی قرارداوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ جموں کشمیر کے حل کیلئے حکومتِ پاکستان اور حکومتِ بھارت ، جموں کشمیر کے لوگوں کو شامل کرکے عملاََ اقدامات کریں۔ ریاست کی دونوں اطراف جاری ظلم و بربریت کو فوری روکا جائے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ انسانیت کا راگ الاپنے والے اداروں اور افراد دنیا کے کسی اور علاقے میں مرنے والے جانوروں کے خلاف بھی آواز اُٹھاتے ہیں لیکن جموں کشمیر میں لاکھوں شہداء کے وارثوں اور آزادی کا مطالبہ کرنیوالوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے۔ بحیثیت انسان اس گلوبل ویلج کے دور میں جموں کشمیر میں ہونے والے بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں کو دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ پوری دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ عیاں ہوسکے۔