نئے پاکستان کا نعرہ ”مہنگائی اور اضافہ“ میں تبدیل
کچھ سال پہلے نئے پاکستان کا نعرہ گونجا تھا جو پورے پاکستان میں تیزی کے ساتھ مقبول ہوا، عوام نے بھی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا کہ شاید نیا پاکستان بننے سے ان کے مسائل کم ہو جائیں، مہنگائی اور بے روز گاری کا خاتمہ ہو جائے۔ گزشتہ جنرل الیکشن میں اس نعرہ کو بلند کرنے والوں کو بالاآخر اقتدار بھی مل گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے نئے پاکستان کا نعرہ بلند کیا تھا اور موجودہ حکومت بھی تحریک انصاف کی ہے اور نعرہ بلند کرنے والے آج وزیراعظم کے منصب پر فائز ہیںلیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود ”نئے پاکستان“ کا نعرے لگانے والوں کو اقتدار ملنے کی تکمیل تو ہو گئی لیکن یہ نعرہ کئی ماہ گزرنے کے باوجود حقیقت کا روپ نہ دھار سکا۔
عوام کو جتنی زیادہ توقعات موجودہ حکومت سے تھیں اس سے کہیں زیادہ اب مایوسی پھیلنا شروع ہو گئی ہے ۔ خوشحالی اور ترقی کے سونامی کے بجائے ملک میں تاحال مہنگائی اور بے روز گاری کا سونامی آیا ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سفید پوش طبقہ کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ ایک موچی ، نائی، کریانہ، درزی، مزدور کسی کے پاس بھی کام کے لیے جائیں تو وہ آپ سے پچھلے سال کے نرخ کی جگہ ڈبل نرخ وصول کرے گا اور ساتھ ہی یہ بات ضرور کہے گا کہ خان کی حکومت ہے اور دیگر۔۔۔ الفاظ سے بھی نوازے گا۔ میرا خود درزی کے پاس جانا ہوا تو اس نے بھی یہی کہا کہ عمران خان کی حکومت ہے، مہنگائی بہت ہے 1000 روپے سے کم سوٹ کی سلائی اب وارے میں نہیں ہے۔ جب کہ کچھ ایسا ہی جواب جوتے پالش کرنے والے سے بھی ملا جو پہلے 20 روپے پالش کے لیتا تھا اور اب30 روپے لیتا ہے۔ درمیانہ درجہ پر کاروبار کرنے والے ہر فرد کا یہ ہی حال ہے جبکہ بڑے کاروباری حضرات کے بھی تاثرات ان سے ملتے جلتے ہی ہیں۔ آپ پراپرٹی کے ڈیلروں کے پاس چلے جائیں یا پھر کسی بھی کاروباری شخص کے پاس، وہ نئے حکومت کے اثرات کا رونا ضرور روئے گا۔یہاں تک کہ تحریک انصاف واحد حکومت ہے جس کو یہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے کہ جس کے اقتدار میں کئی صحافیوں کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے، اس سے پہلے کسی بھی حکومت میں میڈیا سے وابستہ لوگوں کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
امیر لوگوں پر مہنگائی کا کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ ان کی ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہوتی ہے اور اس آمدن میں سے چند ہزار روپے اگر زیادہ لگ بھی جائیں تو انہیں کوئی محسوس نہیں ہوتا جبکہ ایک عام سفید پوش جس کی ماہانہ آمدن ہی چند ہزار روپے ہوتی ہے اس پر تو چند روپے کی مہنگائی کے بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جب اس کا مہینے کا بجٹ ڈسٹرب ہو جاتا ہے تو اسے ایڈجسٹ کرتے سالوں لگ جاتے ہیں۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ تو روپیوں میں کیا جاتا ہے جبکہ قیمتیں کم پیسوں میں کی جارہی ہیں حالانکہ جب یہی حکومت اپوزیشن میں تھی تو حکومت پر تنقید کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی اورپٹرولیم مصنوعات پر پچاس فیصد سے زیادہ ٹیکس بارے ہر دوسرے روز ڈھنڈورہ پیٹا جاتا تھا۔ ہمارے موجودہ وزیرخزانہ اسد عمر میڈیا سے یا کسی بھی تقریب میں جب گفتگو کرتے تو پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کا ذکر ضرور کرتے لیکن اب کئی ماہ ہو گئے تحریک انصاف کی حکومت آئے ہوئے اور ان مہینوں میں پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ زیادہ ہوا جبکہ قیمتیں کم نہ ہونے کے برابر ہوئیں حالانکہ عالمی مارکیٹ میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوتی رہیں ۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز پر اثر پڑتا ہے کیونکہ ذرائع آمدورفت کے اخراجات پڑھ جاتے ہیں جس سے اشیاءکی قیمتوں میں بھی اضافہ ضروری ہو جاتا ہے اور اس کا اثر سفید پوش طبقے پر زیادہ پڑتا ہے کیونکہ امیر لوگوں کیلئے تو قیمتیں کم ہوں یا بڑھیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے پٹرول قیمتوں بڑھنے کے بعد ایک بات بہت زیادہ سننے کو ملتی ہے کہ ہم تو پہلے بھی اتنے پیسوں کا پٹرول ڈلواتے تھے اور اب بھی اتنے پیسوں کا ہی ڈلواتے ہیں۔
عوام میں روز بروز مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔ ایک سفید پوش کیلئے گزر اوقات پہلے ہی بہت مشکل ہورہی تھی اوپر سے حج اخراجات میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ اللہ کے گھر جانے کیلئے جو سفید پوش کئی سال تک ایک ایک روپیہ جوڑ کر پیسے اکٹھے کرتے تھے، ان کی آرزو کو دل اور تمنا تک ہی محدود کر دیا گیا۔
تحریک انصاف والے جس طرح کی ویڈیو اپوزیشن میں رہتے ہوئے سوشل پر وائرل کرتے تھے، آج سوشل پر اسی طرح کی ان کے خلاف ویڈیوزوائرل ہو رہی ہیں ، جس میں مزدور ، گھریلو خواتین، کاروباری شخصیات، ریٹائرڈ پنشنر سب مہنگائی اور بے روز گاری کا رونا رو رہے ہیں اور تنقید کر رہے ہیں۔
حکومت کو کئی ماہ ہو گئے لیکن کوئی پالیسی واضح نہ ہو سکی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ، پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ، مہنگائی میں اضافہ، حج اخراجات میں اضافہ، ادویات کی قیمتوں، بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ تاحال عوام کو ”نئے پاکستان“ کے نعرے کے بجائے ”اضافہ“ کا نعرہ ہی سننے کو مل رہا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جتنا ”نئے پاکستان“ کا نعرہ مقبول ہوا تھا اس سے کہیں زیادہ اب ”اضافہ اور مہنگائی“ کا نعرہ مقبول ہو رہا ہے۔