اٹک: آئل فیلڈ ز کی قریبی آبادیاں گیس کی سہولت سے محروم
ضلع اٹک کا حلقہ این اے 56 جو 3 تحصیلوں جنڈ ، پنڈی گھیب اور فتح جنگ پر مشتمل ہے۔ معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود پسماندگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ بطور خاص تحصیل جنڈ اور تحصیل پنڈی گھیب جہاں سے اربوں روپے ماہانہ معدنی ذخائر کی مد میں حکومتی خزانہ میں جمع ہو رہے ہیں اس حلقے میں دکھنی ، ڈھلیاں ، کھوڑ ، رنگلی، جیسے بڑی آئل فیلڈ موجود ہیں لیکن وہاں کے مکین اس دور جدید میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ لوگوں کی اکثریت آج بھی پینے کیلئے صاف پانی میسر نہیں۔ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے کئی کئی میل پیدل چل کر جانا پڑتا ہے، بعض جگہ سکول تو ہیں لیکن اساتذہ نہیں۔ یوسی سطح پر سرکاری ہسپتال تو بنا دیئے گئے لیکن سٹاف اور ادویات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
معدنی دولت سے مالا مال علاقے کی گردونواح کی آبادی تاحال گیس سے محروم ہے جبکہ یہاں سے نکلنے والی گیس سے دور دراز کے شہر فیض یاب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ گیس پر سب سے پہلا حق قریبی آبادیوں کا ہوتا ہے ۔آئل فیلڈز سے رائیلٹی کی مد میں ملنے والی رقم بھی قریبی علاقوں کے مکینوں پر خرچ کرنے کی بجائے دوسرے علاقوں پر خرچ کی جا رہی ہے جبکہ اس رائیلٹی کے اصل حقدار اس اکیسویں صدی میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ آئل فیلڈز کو بجلی فراہم کرنے کیلئے مکینوں کے صحن میں بجلی کے پول تو نصب کر دیئے گئے لیکن انہیں بجلی فراہم نہ کی گئی۔ گیس فیلڈز کی وجہ سے قریبی علاقے کے باسی مختلف مسائل کا شکار ہیں جن میں جلدی امراض، فضائی آلودگی، درجہ حرارت میں سالانہ اضافہ، بارشوں میں بتدریج کمی، سلفر اور
دوسری قسم کی موذی گیسوں کی بدبو جو کہ اکثر ہی علاقے میں پھیلی رہتی ہے۔ لیکن صد افسوس کہ وہاں کی قریبی آبادیوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہ کی جا سکیں جبکہ پورا ملک اس سے استفادہ حاصل کر رہا ہے۔
اس علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ بے روز گاری کا بھی ہے۔ ان آئل فیلڈز پر ملازمتوں میں بھی پہلا حق قریبی علاقوں کا بنتا ہے لیکن دور دراز سے لوگوں کو بھرتی کر لیا جاتا ہے جبکہ یہاں کے لوگوں کو محروم رکھا جا رہا ہے اور جن چند لوگوں کو ڈیلی ویجز پر بھرتی کیا ہوا تھاان میں سے بھی چھانٹی ہونا شروع ہوگئی ہے ۔ یہاں کی سرزمین جو معدنی دولت سے مالا مال ہے لیکن یہاں کے باسی آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو ان آئل فیلڈز میں روزگار فراہم کر کے حالات زندگی بدلی جا سکتی ہے کیونکہ یہاں کے باسیوں کا انحصار زراعت پر ہی ہے اور فصلوں کا انحصار بھی بارشوں پر ہوتا ہے۔ آئل فیلڈز کی وجہ سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے بارشیں بھی بہت کم ہوتی ہیں جس سے فصلوں کی پیداوار متاثر ہوتی ہے اور غریب کسانوں کا گزر اوقات مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں دکھنی آئل فیلڈز کی قریبی آبادیوں اچھڑی، جابہ، بیلہ زیارت، کھڑیوٹ، پڑیوٹ ، ڈھوک لوہار نے درخواست بھی دائر کی ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہمارے موضع جات کے نزدیک ترین دکھنی آئل فیلڈ1980-81 سے قائم ہوئی جس سے متعدد تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے تھے اور جن سے تیل اور گیس کی فراہمی پورے پاکستان میں کی جا رہی ہے لیکن مذکورہ موضع جات اس اہم سہولت سے محروم ہیں۔ اگرچہ اس علاقے سے تیل اور گیس نکل رہا ہے اور علاقے کے مکین ماحول کی آلودگی کی وجہ سے مختلف طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن علاقے کے لوگوں کو نوکریوں اور بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے ۔ 83 1982- سے ہی علاقے کے غریب اور نادار لوگوں کو نوکریوں کیلئے کوئی کوٹہ نہیں دیا گیا اور باہر سے آ کر لوگ یہاں لاکھوں کما رہے ہیں جبکہ ہمارے علاقے کے نوجوان اور پڑھے لکھے نوجوان بے روزگار ہیں۔
وزیراعظم پاکستان کی ہدایت وزیراعظم سیکرٹریٹ لیٹر نمبر1(1)M-IV/2003 بتاریخ 15 ستمبر 2003ءکے مطابق ایسے تمام آئل فیڈر کے Radius میں پانچ کلو میٹر تک موجود موضع جات کو آئل فیڈر سے گیس کی سپلائی کرنی تھی چونکہ مذکورہ تمام موضع جات دکھنی آئل فیڈ (نزد جنڈ شہر ضلع اٹک) کے پانچ مربع کلو میٹر میں آتے ہیں اور ان کی ہدایات کی روشنی کی صورت میں ان موضع جات کا سروے بھی ہوا تھا لیکن تقریباً پندرہ سال گزرنے کے باوجود گیس کی سپلائی نہیں کی جا سکی۔ اس کے علاوہ گزشتہ دور حکومت میں 34th میٹنگ برائے کونسل آف کامن انٹریسٹ (CCI) میں بھی یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم کی ہدایات کے مطابق ایسے تمام موضع جات جو کہ آئل فیلڈ کے پانچ مربع کلو میٹر دور ہوں گے ان کو گیس سپلائی کے اخراجات گیس سپلائی کمپنیز برداشت کرے گی۔
آئل اور گیس کے پلانٹس کی وجہ سے ہمارے علاقوں کے باسی مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہیں جن میں جلدی امراض ، فضائی آلودگی، درجہ حرارت میں سالانہ اضافہ، بارشوں میں بتدریج کمی اور سلفر اور دوسری قسم کی موذی گیسوں کی بدبو جو کہ اکثر ہمارے علاقوں میں پھیلی رہتی ہے، ہمارے علاقوں میں کثیر تعداد میں آئل اور گیس پلانٹ ہیں جن سے پورا ملک استفادہ حاصل کر رہا ہے لیکن ان علاقوں کے باسی ہی فائدہ حاصل نہیں کر پا رہے ۔ حکومت ہمارے علاقوں پر نظر کرے اور ان علاقو ں میں گیس کی فراہمی یقینی بنائے۔
چیف جسٹس سپرپم کورٹ سے یہ گزارش کی گئی ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی ہدایات کی روشنی میں ان موضع جات میں گیس سپلائی کرنا بھی لازمی تھا مگر اس علاقے کے غریب اور نادار لوگوں کو اس سہولت سے محروم رکھا گیا ہے کو متعلقہ محکمہ جات جن میں منسٹری آف پٹرولیم، آئل اینڈ گیس کمپنی(او جی ڈی سی ایل) ، دکھنی آئل فیلڈ کے انچارج کو ہدایات جاری کی جائیں کہ ان موضع جات میں گیس کی سپلائی یقینی بنائی جائے۔ تاحال ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس درخواست پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری پٹرولیم سے جواب طلب کر لیا ہے ۔