کمرہ امتحان کے دہشت گرد کون؟
تحریر: احمد عثمان علی
ویسے تو ہمارا پورے کا پورا نظامِ تعلیم گرد سے اَٹا پڑا ہے لیکن کہتے ہیں اگر برائی کو قطرہ قطرہ احتیاط سے صاف کر لیا جائے تو بہت ممکن ہے کسی دِن سب گند صاف ہو جائے- ویسے بھی کسی بڑے سے بڑے مسلئہ کو ختم کرنے کا واحد حل اس کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش ہی ہے- کوشش اور سنجیدہ کوشش ہی ثمر آور ہوتی ہے اور میں یہ چند الفاظ اسی کوشش کی چَین میں بطورِ ایک کڑی کے پیش کرتا ہوں-
دیکھیں ۔۔۔ میں جب نظامِ تعلیم کی بات کرتا ہوں تو اس میں حکومت کی تعلیمی پالیسیز سے لے کر خیبر کے کسی پسماندہ گاؤں کے قدامت پرست استاد کی طرزِ تدریس سمیت ایک ایک فیکٹر کو گنتی کرتا ہوں، جو کسی بھی طرح بالواسطہ یا بلاواسطہ ہمارے بچوں کی تعلیم پر اثرانداز ہوتا ہے- ہماری تعلیمی پالیسیز انتہائی غیرسنجیدہ و غیر مؤثر تو عرصے سے ہیں ہی لیکن ان کے ساتھ ساتھ ہمارے سکول سسٹم کے بے پناہ ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان پر ہمارے سکول کے چند اساتذہ یا سربراہانِ ادارہ ہی تھوڑا سنجیدگی سے غور کر لیں تو بہت مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے-
آج کل میٹرک کے امتحانات چل رہے ہیں- میٹرک کے امتحانات کی اہمیت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے- یہ وہ امتحانات ہیں جن کا کسی بھی طالبِ علم کی زندگی پر طویل تر اثرات ہوتے ہیں- آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ اس میں نئی بات کیا ہے، یہ تو سب کو معلوم ہے اور اس کی اہمیت سے کون انکاری ہے؟ آپ کی سمجھ درست ہے اس میں نئی بات کوئی نہیں لیکن اس سے مُتصل ایک اور بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ان ایگزام میں ' نقل کرنا کروانا ایک دفعہ پھر عروج پر ہے- اگر میں یہ کہوں کہ اس دفعہ شرح نقل تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے تو یقیناً بے جا نہ ہو گا۔
میرا تعلق اٹک کی تحصیل جنڈ سے ہے اور تحصیل جنڈ کے حوالے سے ہر سال مجھے نقل کی بے پناہ نئی ترکیبات و کاوِشات کے بارے رپورٹس ملتی رہتی ہیں- آپ یہ سن کر بالکل بھی حیران نہیں ہوں گے کہ نقل کرانے میں ہمارے سکولز کے 'غیر معزز اساتذہ پیش پیش ہیں جنہیں میٹرک کے طالبِ علم ' اچھے نگران ' کے نام سے یاد کرتے ہیں- ہمارے خیال میں پتا نہیں ایسوں کو استاد کہنا بھی چاہئیے یا نہیں؟ معلوم نہیں ان کے لئیے نگران کی اصطلاح استعمال کرنا درست ہے بھی یا نہیں؟ بہت سوچا ایسے کرداروں کو کیا نام دوں لیکن ذہن بہت الجھن میں پڑ گیا- البتہ آخر کار ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ قوم کے وہ گھٹیا کردار ہیں جو قوم کا مستقبل برباد کر کے اپنے بچوں کو حرام کی کمائی کھلاتے ہیں- یہ اپنے فرائض سے غفلت کر کے نہ صرف اپنی اور بچوں کی دنیا بلکہ آخرت کو بھی برباد کرتے ہیں- یہ کمزور رویوں کا وہ تسلسل ہے جس کے سبب ہماری قوم کی اجتماعی حالت اس نہج پر آ پہنچی ہے کہ دنیائے عِلم میں ہم کسی بھی جگہ کوئی مقام حاصل نہیں کر سکے۔
ہمارے ہاں اگر کسی جگہ دہشت گردی ہو جائے تو ہمارے سارے ادارے متحرک ہوتے ہیں اور نہ صرف دہشت گردوں کو کیفرِکردار تک پہنچاتے ہیں بلکہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے- کبھی کبھی سوچتا ہوں کاش کوئی ایسا قانون بھی ہوتا جو ایگزامینیشن حال میں نقل جیسی دنیا کی سب سے بڑی دہشت گردی ہوتی ہے اس کا تدارک کر سکتا؟ کاش کوئی ایسا لائحہ عمل بھی ہوتا جو کمرہ امتحان کے اندر نقل جیسے ناسور کو پروموٹ کرنے کے سہولت کاروں کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچاتا؟ کاش کوئی ایسا دستور بھی ہوتا جو کمرہ امتحان کے اندر موجود ان اساتذہ نما کردار فروش اہلکاروں کو سمجھا سکتا کہ دیکھو تُم معمار قوم ہو، تم قوم کا فخر ہو، تمہاری مسند انبیاء کی مسند سے نسبت رکھتی ہے، تمہاری ذرا سی غفلت قوموں کی قوموں کو ڈبو سکتی ہےَ؟ دیکھو تم ان بچوں کے لئیے مشعلِ راہ ہو- تم جو کچھ آج انہیں دیکھاؤ گے، یہ بچے کل اسی راستے کے راہی ہوں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ نقل کرنے کرانے میں یہ سرکاری سکولز کے اساتذہ اکیلے ہیں- نہیں ایسا بالکل نہیں ہے- ان کے ساتھ معاشرے کے کئی اور ایسے مخفی لیکن بےشرم کردار پرائیویٹ سکولز اور ان اداروں کے سربراہان بھی ہیں جو امتحانات کے پورے پورے سینٹرز کو خرید لیتے ہیں- منڈیاں لگتی ہیں، کھانے کھلانے اور کھانے کی رسمیں اس شرط کے عوض ادا کی جاتی ہیں کہ آپ ہمارے بچوں کو کمرہ امتحانات میں کھلی آزادی دیں گے- انہیں شروعات سے لے کر آخر تک ایک ایک حرف کی نقل کو یقینی بنائیں گے- سوال اٹھ سکتا ہے کہ بھلا پرائیویٹ سکولز والے ایسا کیوں کریں گے؟ اس کا جواب انتہائی سادہ سا ہے کہ ایسا کرنے سے ہی ان کی روزی روٹی کا ' ٹھیؔا ' چلتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ابھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو شمع سے شمع جلائے چلے جاتے ہیں- جیسے جنڈ سے تعلق رکھنے والے ہمارے استادِ محترم ناصر اقبال خان صاحب جیسے کردار جو صحیح خطوط پر اپنے بچوں کی تربیت کرنے میں پچھلے دس سال سے کمر بستہ ہیں اور نقل کو گناہ کبیرہ سے تعبیر کر کے اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں خوفِ خداوندی کو اجاگر کرتے ہیں اور میرے خیال میں یہ خوفِ خداوندی ہی وہ واحد چیز ہے جو کسی بھی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سی بڑی برائی سے چھٹکارے میں معاون ثابت ہوتی ہے- لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک آدمی کے بس کا کام بالکل بھی نہیں، ایک اجتماعی لعنت کو اجتماعی کاوش سے ہی نمٹا جا سکتا ہے، آئیں اپنے کمرہ امتحانات کو نقل جیسے ناسور سے خالی کرنے واسطے ہم آواز ہوں اور معاشرے کے ایسے کرداروں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لئیے اپنی پوری تنگ و دو کریں-