ہماری منزل: تعلیمی انقلاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: عبدالوہاب اعوان
جو بھی سماجی تنظیم ہوتی ہے اُس کی کچھ اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ ہم نے اپنے سامنے منزل "تعلیمی انقلاب" رکھی ہوئی ہے جسے آپ "شعوری انقلاب" بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ ایک ٹیلنٹڈ سٹوڈنٹ کسی نہ کسی طرح اپنی راہ بنا لیتا ہے جب کہ ایک امتحان میں نقلیں مار کر پاس ہونے والا سٹوڈنٹ والدین اور معاشرے پر بھی بوجھ بن جاتا ہے اور اگر اُس کو متعلقہ سیاسی آدمی بھرتی نہ کروائے تو والدین اُس سے بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ معاشرے پر بوجھ ایسے کہ وہ سب کو بتاتے پھرتے ہیں، بیٹے نے میٹرک کر لی، نوکری نہیں مل رہی اور مایوسی پھیلانے کا سبب ... حالانکہ یہ نہیں سوچا جاتا کہ "میٹرک کی کیسے ہے؟"
جس مسئلے کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ملک میں شرح خواندگی پہلے کی نسبت بہتر ہوئی لیکن بحیثیت قوم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کے لیے ہم نے ابھی بہت ساری منازل طے کرنی ہیں۔ ضلع اٹک میں موجود دو، تین گنی چنی یونیورسٹیوں میں سے ایک کامسیٹس یونیورسٹی ہے جہاں پر سابقہ دورِ حکومت میں میرٹ پہ آنے والے اٹک کے ڈومیسائل ہولڈر سٹوڈنٹس ماسٹرز اور ایم ایس وغیرہ بغیر کسی فیس کے کر لیتے تھے جس سے بہت سے ہونہار اور مستحق سٹوڈنٹس مستفیض ہو چکے اور کچھ نے اس غرض سے داخلہ لیا لیکن ابھی اٹک ڈومیسائل ہولڈرز کے لیے وہ سہولت ختم کر دی گئی ہے اور باقیوں کی طرح فیس ادا کرنی پڑ رہی ہے جس سے غریب والدین کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ اُن کے بچے/بچیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے اور بہت سارے ہونہار طلبہ وطالبات یعنی اٹک کا مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے توسط سے میری ذمہ داران سے گزارش ہے کہ اٹک ڈومیسائل ہولڈرز کا کوٹہ بحال کیا جائے۔