شادی کیسی عورت سے کرنی چاہئیے؟
تحریر: احمد عثمان علی
ہمارے یونیورسٹی کے ایک دوست شادی کے حوالے سے بے پناہ فکر مند رہتے ہیں- فکر مند رہنا اور فکر مند ہونے میں ایک باریک سا فرق سمجھ لیجئیے کہ فکر مند کبھی کبھی ہوا جاتا ہے جبکہ فکر مند رہنا ۔۔۔ ہمہ وقتی سرگرمی ہے- یعنی فکر مند ہونا، کرنٹ کی طرح لگنے والی اچانک قسم کی کوئی چیز ہے جب کہ اس کے مقابل تسلسل اور بہاؤ کا نام فکرمند رہنا ہے - ہمارے دوست کی حالت بھی ایسی ہے کہ ہمہ وقت اس کی سوچ وفکر اور ذہنی و جسمانی سرگرمیوں کا مرکز شادی ہی رہتی ہے- اگر آپ چاہیں تو یہاں سے جسمانی سرگرمیوں کو منہا کر کے پڑھ لیں اس سے شاید جملہ زیادہ اخلاقی ہو جائے؟
خیر بتانا یہ چاہ رہا تھا پچھلے ایک مہینے سے ہم دوست جب آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو زیادہ تر موضوع یہی رہتا ہے کہ شادی کب، کیسے، کس سے اور کیوں کرنی چاہیئے؟ شادی کرنے سے پہلے کون کون سے سٹینڈرڈ کو فالو کرنا چاہیئے اور پاس فیل کا کیا معیار ہونا چاہئیے؟
اس موضوع سے متعلق اگرچہ اور بھی کئی دلچسپ اور عمومی نوعیت کے سوال پوچھے جاتے ہیں البتہ ہم ان میں چند ایک کو مختصراً ضبطِ تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں- کل کی بیٹھک میں مجھ سے ایک دوست پوچھنے لگا ۔۔۔ آپ کیا کہتے ہو، شادی کس سے کرنی چاہیئیے؟
گزارش کی ۔۔۔ خادم سائنس کی طرح شادی کے حوالے سے بھی اپنے کانسیپٹس (Concepts) بالکل واضع رکھتا ہے- خیر میں نے اپنے اس پٹھان دوست کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ دیکھو شادی کے حوالے سے پہلی بات تو یہ مدِ نظر رکھنی چاہئیے کہ شادی کسی عورت سے ہی کی جائے- اس کی یک دَم کُھلتی آنکھ کا سوال بھانپتے ہوئے ہم نے وضاحت میں کہا ۔۔۔ چونکہ دنیا بہت ایڈاونس ہو چکی ہے اس لئیے مغربی دنیا میں یہ رسم کُھل رہی ہے کہ شادی کرنے کے لئیے جنس کی کوئی قید نہیں ہونی چائیے- ہم چونکہ مسلمان ہیں اس لئیے ہمارے لئیے یہ ضروری ہے کہ اپنے دین کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق ہی چلیں!
میرے مزید کچھ کہنے سے پہلے اس نے یہاں پر مجھے روک کر اپنی خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا- اس کا کہنا تھا شادی کے لئیے عورت کی سلیکشن میں خوبصورتی کو مرکزی حثیت حاصل ہے- بقول اس کے عورت اپنے شوہر سے قد میں چھوٹی ہونی چاہیئے تاکہ جب وہ شوہر کے ساتھ چلے تو اچھی لگے، اس نے چند دیگر فوائد کا بھی ذکر کیا لیکن ہم بتانے سے قاصر ہیں- مزید کہنے لگا ۔۔۔ اس کے جسم کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی بھرا ہوا ہو تو کیا ہی بات ہے؟ ایسا چہرہ کہ جِسے شدید سردی کی وجہ سے سرخ ہو کر کپکپا اٹھے اور گرمیوں میں اس پر سے پسینہ ایسے بہے جیسے تیل لگی سطح سے پانی سِرکتا ہے- ساتھ ہی ساتھ کہنے لگا سمجھ رہے ہو ناں میں کیا کہنا چاہتا ہوں، ہم نے اثبات میں سر ہلایا تو کہنے لگا ۔۔۔۔ چِیرویں آنکھ کے ساتھ اگر لمبی گہری سیاہ پلکیں انہیں ڈھانپے ہوئے ہوں تو قیامت ہو جائے- مزید یہ کہ لمبی پتلی گردن اور دانتوں کی سفید پتری گلابی ہونٹوں میں ایک روشنی بھر دے- کہنے لگا آپ تصور کرو ۔۔۔ گلابی ہونٹوں پر دودھ کی طرح سفید دانت جب اپنی لعاب لگانے آتے ہوں تو کیا منظر ہو گا- یہاں پر ہم نے گرہ لگائی کہ اگر انہی گلابی ہونٹوں میں نچلا ہونٹ اندر کی طرف پلٹ کر سفید دانتوں کے نیچے پِسے تو اندازہ لگاؤ کائنات کے وجود پر کیا بیتے گی؟ اس پر کہنے لگا، پلیز یہ پِسنے پِسَانے کی باتیں نہ کرو ہمیں کچھ کچھ ہونے لگتا ہے- لہذا ہم یہاں رُک گئے!
خیر اس نے عورت کی خوبصورتی کو ہر ہر اینگل سے ڈسکس کیا اور مجھے سناتا رہا- وقفے پر میں نے اسے مزید کہا لیکن میرے نزدیک صرف خوبصورتی یعنی محض خوبصورتی ہی زندگی کی پگڈنڈی پر چلنے کے لئیے ضروری نہیں- اس کے ساتھ ساتھ کئی دیگر لوازمات بھی ہوتے ہیں، جن کا ہونا بہت ضروری ہے- کہنے لگا، کیا مطلب؟
ہم نے اپنی بات کو بدستور آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ عورت ایک انسان ہے، محض سیکس مشین نہیں- سیکس کے علاوہ اس کی کئی دیگر خوبیوں کو بھی دیکھا جانا چائیے- جیسے کہ اس کی تعلیم کیا ہے؟ اس کا مزاج کیا ہے؟ وہ کیا سوچتی ہے اور اس کے کیا خواب ہیں؟ ان سب چیزوں کے علم کے علاوہ اگر آپ کسی عورت کے ساتھ نکاح میں بندھ بھی جاتے ہیں تو جدید دور میں بے پناہ مسائل جنم لیتے ہیں- خاص اس دور میں کہ جب عورت بچے پیدا کرنے یا نہ کرنے کےحوالے سے سڑکوں پر نکل آئے تو ایسے میں آپ محض گلابی ہونٹوں کا کیا کرو گے؟ ایسے میں تمہاری محض لمبی گردن کس مرض کی دوا ہے؟ عین اس وقت چِیرویں آنکھ کا کیا کرو گے؟
میری تقریر سے متاثر ہو کر کہنے لگا ہاں یہ بات بھی درست ہے- تم کیا کہتے ہو، عورت میں اور کیسی خوبیاں ہونی چاہیئیں؟
ہم نے گلاس سے پانی کا ایک گھونٹ حلق میں اتارتے ہوئے کہا ۔۔۔ میرے نزدیک عورت کی تعلیم بہت ضروری ہے- وہ اس قابل ہو کہ آپ کے ساتھ روزمرہ کے سماجی و معاشرتی مسائل پر سیر حاصل بات کر سکتی ہو- آپ اس سے اپنے نظریات ڈسکس کر سکتے ہوں- وہ صرف آپ کی بَک بَک سنتی ہی نہ ہو بلکہ آپ کی کسی خاص معاملے میں رائے پر اختلاف یا انحراف کر سکتی ہو- وہ زندگی کی مشکلوں میں آپ کے ساتھ برابر کی ساتھی بنے اور آپ کے دکھ درد کو کہے بغیر محسوس کر سکتی ہو- یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہو- مزید کہا ۔۔۔ ہم تو اپنے لئیے ادب سے شغف رکھنی والی بیوی پسند کریں گے- وہ ادب پڑھنے اور لکھنی والی ہو- ادب اور اچھا ادب لکھے، پڑھے، اسے ڈسکس کرے- مزید کہا ۔۔۔ بیوی اور اچھی بیوی وہ ہے جو اچھی چائے بنانا جانتی ہو؟
میرے یہاں پہنچنے پر وہ برجستہ ہنس کر کہنے لگا ۔۔۔ ہوں، یہ کیا خوبی ہوئی؟ اچھی چائے تو ایک کُک یعنی باورچی بھی آپ کو بنا کر پِلا سکتا ہے؟
ہم نے الفاظ کو پیستے ہوئے انتہائی دبے لہجے میں کہا ۔۔۔ ہنہ کُک، باورچی؟ اندھا کیا جانے بسنت کی بہار- تم ذرا تصور کرو، آپ پی ایچ ڈی کا تھیسز لکھ رہے ہو- رات کے دو بجے ہیں- کمرہ بالکل خاموشی سے معمور ہے اور وہاں پر تم کسی سائنس کے آرٹیکل میں دھنسے پڑے ہو- تمہارا دماغ اپنے کام کی تمام تر صلاحتیں ترُوڑ چکا ہے- ایسے انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال میں جب آپ کو ایک طرف باورچی اور دوسری طرف اپنی بیوی چائے پلاتی ہے تو کس چائے میں زیادہ چاہت اور شیریں ہو گی؟
بیوی ۔۔۔ بے شک بیوی کے ہاتھ کی چائے ہی اصل تھکاوٹ دور کرے گی- لیکن پھر پریشان ہو کرکہنے لگا ۔۔۔ اگر ایسے ہو تو پھر تو کیا ہی سواد آئے لیکن ایسی بیوی کا مِل جانا، کیا اس جہاں میں ممکن ہے؟ گزارش کی اقبال نے کہا تھا ۔۔۔ پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ- بھلا سوچنے میں کیا جاتا ہے اور ویسے بھی حضرات کہتے ہیں اچھا سوچنے سے اچھا ہوتا ہے اور برا سوچنے سے برائی ہی در آتی ہے-
کہا سنا تو ہم نے بہت کچھ ہے لیکن یہاں پر میں اپنے ایک تیسرے دوست کی رائے رکھ کر اجازت چاہوں گا- وہ کہتا ہے آپ دونوں جن جن خوبیوں اور صلاحتیوں کا ذکر کر رہے ہو یہ سب فضول ہے- ہماری رائے میں بیوی میں صرف ایک کوالٹی ہونا چاہئیے کہ وہ ایسا بیوی ہو کہ جب ہم اسے دیکھیں تو ہم خوش ہو جائے، ہمارا سارا تھکاوٹ دور ہو جائے، ہمیں اندر سے ایک خوشی پھوٹتا محسوس ہو- بس یہی ہمارا ارمان ہے اور یہی فرمان قرآن ہے-
ہمارے پٹھان دوست نے اپنی قمیض کا پَلا درست کرتے ہوئے کہا!