جنڈ کا نوحہ کون لکھے ؟

تحریر: غلام مصطفی ملک
جنڈ ضلع اٹک کی ایک تحصیل ہے ۔
تحصیل بھی کیا ہے ؟ مسائل ، مشکلات ، پسماندگی کی جیتی جاگتی تصویر ہے 
لکھنے ، کہنے ، سننے تو یہ پنجاب کا ایک حصہ ہے لیکن اس کی حالت زار دیکھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ " نیٹو افواج " کی افغانستان کے علاقے قندوز ، کابل یا ہرات کے کسی علاقہ پر بمباری کے بعد اجڑنے اور تباہ ہونے والا کوئی ایریا ہو ۔ 
لوگ مجھے ، تھر میں پانی کی عدم دستیابی ، کوہلو کی خستہ حالی فاٹا ، جنوبی پنجاب کی پسماندگی کے قصے سناتے ہیں ، میں انہیں اتنا ہی کہتا ہوں کبھی میرے جنڈ آو ، تم سارے دکھ ، سارے درد اور سارے گلے شکوے بھول جاو گے ۔
پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت اور لگ بھگ 100 کلو میٹر مغرب کی طرف آباد یہ شہر ، یہ تحصیل اور اس کے مکین اس ملک کے شہری ہی نہیں لگتے ۔
جنڈ تک پہنچنے کے لیے ایک مرکزی شاہراہ ہے جو #کوہاٹ ، سے ہوتی ہوئی پشاور ، جنوبی اضلاع ، افغانستان تک جا پہنچتی ہے ، اس طویل اور تاریخی شاہراہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی دن ، کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا کہ اس تحصیل کے مکین اپنوں کے لاشے اٹھائے گھر نہ جاتے ہوں ۔ کھنڈا سے سڑک کی حالت ایسی کہ اس سے کچی پگڈنڈیاں بہتر دکھائی دیں ، یہی حال پوری تحصیل کی بیشتر رابطہ سڑکوں کا بھی ہے
جنڈ میں تحصیل سول ہسپتال موجود ہے ، مگر جہاں نہ قابل ڈاکٹر ملتے ہیں ، نہ دوائی ، نہ علاج کی کوئی بہتر سہولت نہ کوئی شفاء ، نہ کوئی دوا 
یہی حال جنڈ میں موجود تمام بنیادی ہیلتھ یونٹس اور سنٹرز کا ہے ، یہی حال تعلیمی اداروں کا ہے اور یہی حال انتظامیہ اور پولیس کا ہے ۔
اس حال تک پہنچانے میں اور ایسے حالات میں جینے پر میں کسی حکومت کو مطعون نہیں ٹھراتا ، کسی سیاسی جماعت ، شخصیت پر سنگ باری بھی نہیں کرتا ۔
بلکہ ان حالات کا ذمہ دار اپنے سمیت ہر شخص کو سمجھتا اور جانتا ہوں جو کسی نہ کسی حثیت میں اس سماج میں ایک ذمہ دار شخصیت کا حامل تھا مگر اس کی سیاسی وابستگیوں ، مسلکی جھگڑوں ، اور دیہی نفرتوں نے اس جنت نظیر وادی کو دوزخ بنا دیا ہے ۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کب تک ہم جوانوں کے تڑپتے لاشے کوہاٹ روڈ سے اٹھاتے رہیں گے ؟ 
کب تک ہماری عفت مآب مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں پانی بھرتی رہیں گی ، بالن ڈھوتی رہیں گی؟ 
کب تک ہمارے اپنے ڈاکٹر ، دوا ، علاج کی بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے پر سسک سسک کر مرتے رہیں گے ؟ 
کب تک میرے ذہین اور فطین بچے اور علم کے دیوانے بہتر تعلیمی ادارے میسر نہ ہونے پر اپنے ٹیلنٹ کو ضائع کرتے رہیں گے ؟ 
کب تک اس تحصیل کے وڈیرے ، جاگیردار اور نواب اپنی کرسیوں کے چکر میں عوام کو چکر دیے رکھیں گے ۔ ؟ 
کب بنیادی سہولیات سے محرومی ہمارا مقدر رہے گی ۔ 
کب تک ہماری زمینوں سے نکلنے والی گیس سے ہمیں محروم رہنا پڑے گا ؟ 
کب آئل فیلڈوں کی ریالٹی سے میرا جنڈ کا باسی بھی مستفید ہو گا ۔
یہ ناانصافیاں ، یہ نااہلیاں یہ سیاسی چالاکیاں اک اک کر کے سب کو مار دیں گی ۔
پسماندگی ، جہالت ، بے روزگاری ، بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی یہ لوگ یہ علاقہ کب تک سہہ پائے گا ۔ 
میں اور تم سب مل کر اسی دن کا انتظار کرتے رہیں کہ موت کا فرشتہ آئے ، ہماری روح قبض کرے اور ہمیں مسائل سے نجات ملے ۔
یمارے ساتھ جو ہوا ، سو ہوا ، جو ہو گا ، سو ہو گا ، ، خدا نہ کرے یہ۔دکھ ، یہ غم ، کرب کے لمحے کبھی کسی اپنے عزیز از جان رشتہ پر آجائیں تو سہہ پاو گے ؟
اگر سن سکتے ہو تو سنو ،!!! 
میں اپنے کئی لاشے اٹھا چکا ہوں ، میری جوان بھانجی مرض کی تشخیص بروقت نہ ہونے پر زندگی ہار گئی 
میری جواں سالہ بہنا بنیادی طبی سہولیات نہ ملنے پر اپنے 10 روزہ بچے کو چیختا ، بلکتا اور تڑپتا چھوڑ کر بہت سارے گلے شکوے لے کر اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئیں ، میرے کزن خالد ، اپنے بھائی اور بھانجے کے ساتھ عید کے روز ٹریفک کے المناک حادثے میں اپنی جان سے گزر گئے ۔
ہم تو جی رہے ہیں مگر کیا تم سب اتنا کچھ سہنے کے بعد سکھ سے جی پاو گے ؟
آج بھی جب کسی جوان کو کوہاٹ کے خونی روڈ پر مرتے دیکھتا ہوں ، آج بھی جب کسی مریضہ کو بے وجہ موت کے منہ میں جاتے دیکھتا ہوں ،آج بھی ظلم ، بربریت اور ناانصافی کی داستانیں سنتا ہوں تو آئینے میں اپنے اور آپ کے چہرے پر مریضوں ، مقتولوں اور مسافروں کے خون کے دھبے اور انگلیوں پر خنجر کے نشان دیکھتا ہوں ۔
یاد رکھنا جن کے اپنے بے مقصد اور ناگہانی موت مر جاتے ہیں وہ روز مرتے اور روز جیتے ہیں ، اللہ نہ کرے یہ کرچی کرچی موت ، یہ دشوار زندگی ، یہ گھمبیر صورت حال اور یہ پرآشوب لمحے کبھی آپ کی زندگی میں آئیں ،راحت ، سکون اور بے فکری آپ کی زندگی سے رخصت ہو جائیں۔ اس سے قبل جاگنا ہو گا۔
دیر ہو چکی ، بہت ہو چکی ، مگر جب اک انسان بھی شعور اور آگہی کی منزل کو پہنچے تو منزلیں کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہوں مل کے رہتی ہیں ۔

اگر آپ اور میں اپنا کل بدلنا چاہتے ہیں تو پھر آج ہمیں جنڈ کو بدلنے کے لیے ، اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی قسمت بدلنے کے لیے ، ذات برادری ، دھڑے ، مسلک ، سیاست سے بالاتر ہو کر آوازاٹھانی ہو گی ، ورنہ یہ خونی کوہاٹ روڈ ، یہ پسماندگی روز ہماری زندگیاں اجاڑتے رہیں گے ۔
سوچنا ضرور میں اپنا نوحہ لکھ چکا ، پھر ہمارے بعد #جنڈ کا نوحہ کون لکھے گا ۔ 
GhulamMustafaMalik
غلام مصطفی ملک ، جنڈ، اٹک، پنجاب پاکستان