حقیقت چھپانا مشکل ہے
(تحریر: مظہر برلاس)
وزیراعظم پاکستان کی شاندار تقریر آپ سن چکے ہیں، صرف پاکستانی اور کشمیری نہیں، پورا عالمِ اسلام اَش اَش کر رہا ہے۔
عمران خان کی زندگی کا سفر بھی عجیب ہے، پہلے اسے کرکٹ میں داخل ہونے نہیں دیا جا رہا تھا۔ وہ اپنی محنت اور لگن سے کرکٹ میں داخل ہوا پھر وہ مقبول ترین کرکٹر بن گیا، اس نے پاکستان کو عالمی کپ جتوا دیا، جو پاکستان کبھی نہیں جیت سکا تھا۔
عمران خان نے سماج کی خدمت کرنا چاہی تو اسے بتایا گیا کہ یہ مشکل کام ہے، کینسر اسپتال تو پاکستانی حکومتیں نہیں بنا سکیں، آپ کیسے بنالیں گے۔ اُس نے مشکل کی پروا کئے بغیر قصد کیا اور اسپتال تعمیر کرکے چھوڑا۔ اب وہ پشاور اور کراچی میں ایسے اسپتال بنا رہا ہے۔
تعلیمی میدان میں اُس نے پسماندہ علاقوں کے طلبا و طالبات کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھولے، جو بچے برطانیہ جاکر نہیں پڑھ سکتے تھے وہ ویسی ہی تعلیم نمل میں حاصل کر رہے ہیں۔
سماج کے دکھ اسے سیاست میں لے آئے۔ پاکستان کے کرپٹ سیاستدانوں نے ایک طرف اس کا مذاق اڑایا تو دوسری طرف اسے روکنے کیلئے ہر حربہ آزمایا۔
تمام حربوں کی کڑی آزمائش سے گزر کر عمران خان نے اپنے سیاسی حریفوں کو چت کیا، اس نے نئی پارٹی بنائی، لوگوں کو کرپشن کے خلاف ووٹ دینے کی اپیل کی، اس نے تن تنہا کرپٹ مافیا کا مقابلہ کیا، بھرپور جدوجہد کی، وہ سرخرو ہوا، وزیراعظم پاکستان بنا، مخالفین کے سارے وار خالی گئے۔ اس کے لئے معاشی مشکلات کا پہاڑ کھڑا کیا گیا مگر وہ گھبرایا نہیں۔
اب اس نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ایسا خطاب کیا ہے کہ اس کے چرچے پورے عالم میں ہیں، اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر بھی سوالات اٹھا دیئے ہیں، طاقتور مغربی ملکوں کے کردار پر بھی سوالات کی بوچھاڑ کی ہے، مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی خوب سنائی ہیں، خود کو اسلامی دنیا کا لیڈر منوا لیا ہے، اس کا ماتھا چومنے والوں میں ایردوان بھی شامل ہے، اس کی تقریر یقیناً یادگار ہے، اس نے لکھے ہوئے لفظ نہیں پڑھے بلکہ دل کا حال زبان سے بیان کیا ہے۔
خطاب سے پہلے ملاقاتوں نے ایسی دھوم مچائی کہ اس سے قبل ایسا نہ ہو سکا تھا۔ اسلامی ممالک کے انگریزی چینل کی بات بھی کر ڈالی، اس سے پہلے تو مسلم دنیا یہ بھی نہ کر سکی تھی۔
عمران خان نے اپنی تقریر میں وہ کچھ کہہ دیا جسے کہنا مسلمان حکمرانوں کے لئے بہت مشکل تھا، رسول پاکﷺ سے عشق کھل کر بیان کیا۔ پاکستان میں اس کے مخالفین منہ میں انگلیاں دبائے حیرت زدہ ہیں، اسلام کے ٹھیکیدار پریشان ہیں، وہ بھی پریشان ہیں جو مودی کو گھر بلایا کرتے تھے، وہ بھی بے چین ہیں جنہوں نے چن چن کے غداروں کو پاکستان کا سفیر بنایا۔
مغربی دنیا الگ حیران ہے، پورا بھارت پریشان ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے بیس پچیس دن پہلے وزیراعظم پاکستان سے ایک طویل نشست ہوئی، جس میں کئی ملکوں کے کردار زیر بحث آئے۔ اس ملاقات میں عمران خان نے برجستہ کہا تھا ’’پاکستان میں اس وقت جتنے بھی سیاستدان ہیں اُن میں سب سے زیادہ مغرب کو سمجھنے والا میں ہوں، مجھے پتا ہے مغربی دنیا کو کس طرح سمجھانا ہے‘‘۔
بھارتی باشندوں کو آئی ٹی پر حکمرانی کا بڑا بخار ہے۔ اس بخار کے باوجود عمران خان سوشل میڈیا پر چھایا رہا۔ گوگل پر سرچ کئے جانے والے حکمرانوں میں بھی وہ مودی سے کہیں آگے تھا۔
یوٹیوب پر اس کی تقریر سننے والے لاکھوں میں ہیں جبکہ مودی کو سننے والے چند ہزار۔ عمران خان نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا میں مودی کو دھول چٹا دی ہے۔
ہیوسٹن کے بعد تو مودی کہیں پر اعتماد نظر ہی نہ آ سکا۔ جن امریکیوں کو اس نے خوش کرنا چاہا تھا وہ بھی ناراض ہوئے، انہوں نے بھی کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
اب حالت یہ ہے کہ بھارت کا وزیرداخلہ امت شاہ دہلی میں یہ بتاتا پھر رہا ہے کہ جموں وکشمیر کے 196تھانوں میں کرفیو نہیں ہے، صرف آٹھ تھانوں کی حدود میں دفعہ 144نافذ ہے، وہاں بھی سختی نہیں ہے، امت شاہ دنیا سے پھر جھوٹ بول رہا ہے۔
بھارت کی موجودہ سرکار کس قدر پریشان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امت شاہ، نہرو میوزیم دہلی میں کھڑے ہو کر کہہ رہا ہے کہ ’’1948میں جواہر لعل نہرو کا کشمیر کے مقدمے کو اقوام متحدہ میں لے جانا ہمالیہ سے بڑی غلطی ہے‘‘۔
ہندوستان پچھتا رہا ہے کہ ان کا پہلا وزیراعظم کیوں اقوام متحدہ گیا؟ اگر وہ نہ جاتا تو آج عمران خان قراردادوں کا حوالہ نہ دیتا، آج وہ اقوام عالم کے سامنے مسئلہ کشمیر نہ رکھتا، آج وہ بھارت میں ہونے والے مظالم کو بیان نہ کرتا۔
امت شاہ سارا غصہ نہرو پہ نکال رہا ہے، لگتا ہے مودی سرکار کےلوگ جواہر لعل نہرو کا وہ خط ابھی تک نہیں بھولے جو اس نے 1947میں بھارت کے تمام وزرائے اعلیٰ کو لکھا تھا جس میں آر ایس ایس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا، جس میں اسے نازی طرز کی تنظیم کہا گیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ وہی آر ایس ایس ہے جس نے بھارت کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی کو قتل کیا تھا۔ عمران خان کی تقریر کے بعد آر ایس ایس کے رہنما کرشن گوپال نے اعتراف کیا ہے کہ ’’ہاں ہم دہشت گرد ہیں اور بھارت ہمارا حصہ ہے، مودی، بھارت اور آر ایس ایس ایک ہی ہیں‘‘۔
مودی کے دہشت گرد ہونے کی گواہی اب بھارت سے بھی آ رہی ہے۔ مودی کتنا منحوس ہے کہ اس چندرے نے نیتن یاہو کی الیکشن مہم میں حصہ لیا، وہ الیکشن ہار گیا۔
مودی نے کہا ’’ایک بار پھر ٹرمپ سرکار‘‘ بس اس جملے کے بعد ٹرمپ کی پریشانیوں میں اضافہ ہوگیا، آج کل امریکی صدر بہت پریشان ہیں، مودی نے معیشت پر سیاست کی، بھارت کے چودہ بینک ڈوب گئے، باوجود بیرونی سرمایہ کاریوں کے بھارتی معیشت مسلسل گر رہی ہے، مودی چندرے سے بھارت کی خیر نہیں اسی کے دور میں بھارت کے کئی ٹکڑے ہو جائیں گے۔ رہے عمران خان تو ان سے متعلق افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
بشکریہ:جیو جنگ گروپ