حضرت سید رحمت اللہ شاہ بُخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا زیارت بیلا جنڈ اٹک
حضرت سید رحمت اللہ شاہ بُخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا زیارت بیلا جنڈ اٹک
حوالہ تحریر روزنامہ اساس 27 دسمبر، تحریر و تحقیق۔ سید حبدار قائم
ولادت 1503 عیسوی
وفات 1604 عیسوی
سر زمین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اولیاء کی درخشاں و تاباں ہستیاں نعمت کبریٰ سے کم نہیں ہیں ۔اولیاء اللہ نے انسان کو انسان سے محبت کا درس دیا ہے۔دکھی انسانیت آج پھر اُن جسے مقدس لوگوں کہ انتظار میں ہے کیوں کہ زمین سے عدل و انصاف اٹھتا جا رہا ہے اور ہم لوگ تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔آج پھر کوئی اللہ تعالیٰ کا نیک بندہ اٹھے ہماری ہوس پرستی کو ختم کرکے ہمارے دل و روح کو محبت سے بھر دے کیوں کہ اب وقت کا یہی تقاضا ہے۔ ماضی میں جب بھی اٹک کی سر زمین ظلم و جبر سے بھر گئی تھی تو حضرت سید وہاب بُخاری نے اپنے مریدین کو ان کی عبادتوں اور ریاضتوں کے بدلے میں ولایتِ کے مقام تک پہنچایا، ظلم و ستم کی سرکوبی کے لیے اٹک کے مختلف علاقوں میں بھیجا ان میں ایک بزرگ حضرت رحمت اللہ بخاری رحمۃ اللہ تھے۔
مختصر تعارف
حضرت سید رحمت اللہ شاہ بُخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا بخارا سے اچ شریف آنے والے سادات کا فخر ہیں۔آپ کا سلسلہ نسب 26 ویں پشت میں جد ائمہ طاہرین اور جد اولیاء حضرت علی علیہ السّلام سے جا ملتا ہے۔آپ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کے ساتھ ملحقہ گاؤں زیارت میں 1568 عیسوی میں اوچ شریف سے ہجرت کرکے آئے آپ کے والد حضرت احمد شاہ بڈھا المعروف زندہ پیر تھے آپ کی ولادت 1503 عیسوی میں ہوئی۔ جو کہ مشہور بادشاہ ابرہیم لودھی کا دور بنتا ہے آپ نے 1604 میں دنیا سے پردہ کیا اور خالق حقیقی سے جا ملے۔آپ کی زندگی میں ابرہیم لودھی،ظہیر الدین بابر،نصیر الدین محمد ہمایوں،شیر شاہ سوری اور جلال الدین محمد اکبر بادشاہ گزرے۔آپ کے مرشد حضرت شاہ عبد وہاب رحمۃ اللہ تھے آپ کا سلسلہ "بخاریہ" تھا مرشد کی بیعت میں مجاہدات و ریاضات میں 38 سال رھے اور سلسلہ سہروردی میں بھی کمال حاصل کیا۔آپ حضرت بہاوالدین کے مدرسے میں بھی پڑھاتے تھے جو کہ علم و حکمت کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
چھانگلا ولی موج دریا
حضرت رحمت شاہ بُخاری المعروف چھانگلا ولی موج دریا کے پاس ایک عورت آئی کہ میں بے اولاد ہوں اولادِ نرینہ کے لئے دعا کریں۔آپ نے فوراً دعا دی اور کہا کہ اگلے سال اللہ تعالیٰ تمہیں ایک بیٹا دے گا وہ عورت کہنے لگی کہ میں بہت سارے پیروں،فقیروں اور بزرگوں کے پاس دعا کے لئے گئی ہوں یہ کیسے پتا چلے گا کہ میرا پیدا ہونے والا بیٹا آپ کی دعا سے ہوا ہے آپ اس کی کوئی نشانی بتائیں آپ رح نے مسکرا کر کہا کہ اگر اس کے ہاتھوں کی چھ اُنگلیاں ہوئیں تو وہ میری دعا سےہو گا اگر اُس کی پانچ اُنگلیاں ہوں تو کسی اور بزرگ کی دعا سے ہو گا۔یہ سن کر وہ عورت چلی گئی اور ایک سال بعد اُس کو اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے سرفراز کیا۔جس کی چھ،چھ اُنگلیاں تھیں جس کی وجہ سے لوگ اس بچے کو چھ انگلا کہنے لگے اُس عورت نے لوگوں کو اس کی وجہ بتا دی تو لوگوں نے آپ کو چھ اُنگلا بچے کے دعا دینے والا ولی مشہور ہونے لگا چھ انگلا کہتے کہتے چھانگلا ولی مشہور ہو گئے۔آپ کو مرشد نے موج دریا کا لقب دیا آپ کے نام کی وجہ تسمیہ اس لیے چھانگلا ولی موج دریا بنی۔
کرامات
آپ کی مشہور کرامات یہ ہیں پرندوں سے ہمکلام ہونا،پتھروں کا بیڑا دریا سندھ میں چلانا،پیر نارا کے سر پر سینگ نکالنا جس کی نشانی اب بھی اُن کی نسل میں ماجود ہے،ڈاکوؤں نے مذاق کیا زندہ آدمی کا جنازہ آپ سے پڑھوایا تو جنازہ مکمل ہونے کے بعد بندہ حقیت میں مر چکا تھا۔جنات کو قرآن مجید پڑھانا،جادو گر بدھو کراڑ سے مقابلہ کرنا جادوگر بدھو کراڑ مقابلے کی غرض سے جب اپنے جادو کے بل بوتے پر ہوا میں اُڑا تو آپ کا اپنے جوتوں کو حکم دینا اور ہوا میں بدھو کراڑ کی پٹائی کر کے زمین پرگرانا اور جادو گر کا تائب ہونا۔ایسا ہی ایک جادوگر باغ نیلاب کے مقام پر تھا جس کی سرکوبی کے لیے آپ کے مرشد پیر عبدالوہاب بُخاری نے حضرت نوری سلطان کو بھیجا جس کا ذکر انگریز مورخ لیبل ایچ گرفن نے اپنی کتاب پنجاب چیفز کے صفحہ 563 پر کیا۔ تربزوں کو پتھر بنانا ،بہت بڑے سانپ کو پتھر بنانا،آپ کے حکم عدولی پر لوگوں کہ گھروں سے کیڑوں کا نکل آنا اور جانوروں تک کہ بھاگ جانا معافی مانگنے پر دوبارہ کیڑوں کا غائب ہو جانا۔اپنے اخلاق و کردار سے لاکھوں افراد کو کلمہ پڑھایا اور دائرہ اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔ حضرت چھانگلا ولی موج دریا زیادہ تر فاقہ کی حالت میں رہتے تھے عبادت کے لیے کم سوتے تھے اور بحال قوت کے لیے دودھ پیتے تھے۔
اقوال
آپ کے اقوال آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہیں اور سونے کے پانی لکھنے کے قابل ہیں وجود کی تاثیر نیت کے خلوصِ سے بنتی ہے۔معرفت والے انسان کا زیادہ کھانا اور سونا اُس کی طاقت پرواز کم کر دیتا ہے۔ نفس کو پھیلنے دینا اولیاء کے نزدیک فقر کی موت ہے نفس امارہ ایسا شیطان ہے جو آدم علیہ السلام کے سجدے کی حقیت کو آج بھی جھٹلاتا ہے۔کھانا کھاؤ معرفت خدا کی ریاضت کے لیے اور دودھ پیو قوت بحالی کے لیے۔جنات تک اسلام پہنچانا بزرگان دین پر واجب ہے۔ بندوں کا خیال رکھنا بندوں کی مدد کرنا اور بندوں کو عاجزی سے ملنا مخفی بندگی۔ آج بھی لاکھوں افراد آپ کے دربار پر آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ کر جاتے ہیں اور ان کی منتیں پوری ہوتی ہیں۔