حافظ سعید: بھارت کا نیا پوسٹر بوائے
بھارت میں حافظ سعید کو 2018کا پوسٹر بوائے بنا دیا گیاہے۔ سارے بھارت میں ماتم جاری ہے ان کا پوسٹر دلکش اور رنگین دکھائی دینے والے بھارتی میڈیا پر نیا بم بن کر گرا ہے۔ بظاہر روشن خیال اور آزاد خیال نظر آنے والا بھارتی میڈیا مظلوم کشمیریوں پر گندی زبان سے حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ سب ایک اخبار کے مدیر کی حافظ صاحب سے دوستانہ ملاقات کا شاخسانہ ہے۔ یہ کالم نگار بھی گزشتہ دنوں غیرقانونی نظربندی کے بعد مبارکباد کیلئے ایمن آباد کے بھا دتو کی خاص برفی لے کر حاضر ہوا تھا۔ حافظ صاحب نے پس پردہ جاری سازشوں اور مشرقی وسطی کے بحران پر اپنا تجزیہ بڑی دل گرفتگی سے بیان کیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی میدان میں حافظ سعید کے بڑھتے ہوئے قدموں پر بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ جمہوریت کی مالا جپنے والوں کا خبث باطن عیاں ہورہا ہے مسئلہ نظام کا نہیں، شخصیات کا ہے۔ کردار بدلنے سے دشمن کا رویہ کیسے بدل جاتا ہے، پاکباز ماں کا سربلند بیٹا حافظ سعید اس کی زندہ جاوید مثال بن گیا ہے۔ ہمارے جنگ جو میڈیا کے لئے بھارتی میڈیا آئینہ ہونا چاہئے تھا اس سے سبق سیکھنا چاہئے تھا لیکن ہم نے تو اجمل قصاب کے گھر والوں کو جھٹ پاکستان میں تلاش کرکے بھارت کے سامنے پیش کردیا۔ اجمل قصاب کے گاوں تک پہنچنے کی کہانی عالمی شہرت یافتہ وقائع نگار عون ساہی کی دوست کم بارکر نے تفصیل سے بیان کردی ہے ۔رہے پاکستانی کلبھوشن تو ان کی پاکستان دشمنی کے عملی مظاہرے کسی بھی بھارتی ٹاک شو کی صورت دیکھے جاسکتے ہیں جس میں مخالف نکتہ نظر کے حامل کسی بھی فرد، تجزیہ نگار یا غیرجانبدار مبصرکی گفتگو کو ناممکن بنادیا جاتا ہے۔ بات پاکستان کی ہو، کشمیر کی ہو، بھارتی میڈیا کا رنگ دیکھنے والا ہوتا ہے پھر یہ ٹاک شو نہیں گالم گلوچ شو ہوتا ہے۔ امریکی اور بھارتی ذرائع ابلاغ دو مونھی سانپ کی طرح حافظ سعید کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ انگریز برصغیر میں رہنے والوں کو بابو کہہ کر استہزا کرتا تھا۔ ببون بندر کی نقالی اس نے تاجرانہ عیاری کے بھیس میں غلام بنا لی جانے والی قوم پر چسپاں کی تھی، پوسٹر بوائے2018 کی تازہ غلیظ بھارتی مہم حافظ سعید کے میدان سیاست میں بڑھتے قدم روکنے کی کوششِ ناتمام ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کے حادثہ، سانحے یا پھر سازش کے بعد بھارت نے موقع کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ سوویت یونین سے یاری رکھنے والے امریکی گود میں جاگھسے۔ سارا ہندو تو اس وقت ٹرمپ کے سامنے دوزانو، دجال امریکی ریاست کے قدموں میں ڈھیر ہے۔ پاکستان دشمنی کی اس سازش میں انہوں نے عین اسی طرح جگہ بنائی جیسے برصغیر میں انگریز کی آمد پر چاپلوسی، ابن الوقتی، قوم وطن فروشی سے لی تھی۔ بھارت میں ممبئی حملوں کو 26/11 کی اصطلاح کا گھڑنا عیارانہ چال کا بین ثبوت ہے۔امریکہ کی زبان پر حافظ سعید اور حقانی کا ورد تسبیح کے دانوں کی طرح گردش میں ہے۔ بھارتی بھی رام رام کرتے اس محفل ذکر میں جاگھسے ہیں۔ چانکیہ کی پالیسی دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے پوری قوت سے بروئے کار آئی۔ عالمی دہشت گردوں کی خودساختہ فہرست کی تیاری، پابندیوں، خوف لالچ اور دھمکیاں فرمان امروز بن چکی ہیں۔ پاکستان میں مودی کے یار یہ چھوٹے چھوٹے کلبھوشن کیسے پیچھے رہ سکتے تھے۔ یہ نام نہاد لبرل یہاں امریکی ومودی دھنوں کی دھنوں پر رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد ہر اس آواز کو خاموش کرانا ہے جو پاکستان کی خودمختاری، کشمیریوں کے حق اور امریکی و بھارتی غلامی قبول کرنے سے انکاری ہے۔ امریکہ کہیں بھی کسی کا گلہ کاٹ دے، کوئی نہ پوچھے بھارت کتنے ہی کشمیریوں کو ذبح کردے، بس قبول قبول کی صدائیں آتی رہیں۔ جب تک پاکدامن ماں کے ایسے فرزند اس دھرتی پر موجود ہیں جو بھولی بسری تاریخ بھارتی درندوں کو یاد دلاتے رہیں گے۔ امریکہ اور بھارت کی نیندیں اس وقت سے حرام ہوچکی ہیں جب سے سیاسی دھارے میں حافظ سعید اور ان کے جانثار ساتھیوں کی شمولیت کی خبریں سامنے آنے لگیں۔ مودی دوستی میں نظریہ پاکستان کی تمام حدود کو پھلانگ جانے والے شریفین کے سیاسی قلعے این اے 120کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے مفاد پرستوں کو خوفزدہ کردیا۔ بھارتی مکار پیچ وتاب کھانے لگے اور پچاس سال پہلے ہوا کا رخ بھانپنے کی فطرت رکھنے والے مستقبل کے موسموں کو جان گئے۔ حافظ سعید کی انتخابات میں مقبولیت سے اٹھنے والا خوف دراصل پاکستان کے دشمنوں کو مستقبل میں اپنے انجام سے ڈرا رہا ہے۔ میڈیا کا پتلی تماشا تو اس تماثیل کے کہانی کاروں کے پلاٹ کا انجام ہے۔ حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ شیخ الحدیث خادم حسین رضوی اور حافظ سعید دو ایسے بابے ہیں جو سیاسی بساط الٹ پلٹ دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ چکوال کے حالیہ ضمنی انتخاب موسم کی تبدیلی کا تازہ نمونہ ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخاب مسلم لیگ (ن)نے دوبارہ جیت لیا ہے لیکن تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار ناصر عباس غیر معمولی 16956ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر ہیں جو سیاسی جگادریوں کے لئے پریشان کن ہے۔ تحریک آزادی کشمیر حقیقی معنوں میں اس وقت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ قبلہ اول چھیننے کے امریکی اقدام نے عالمی منظرنامہ کے خونیں مستقبل کا ابتدائیہ جاری کردیا ہے۔ ریت میں سر چھپانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ قدرت جب حق اور باطل کو میدان میں ایک دوسرے کے سامنے صف آرا کردے تو تدبیر وترکیب فطرت کی باندیاں بن جاتی ہیں۔ پاکستان عالمی سطح پر جاری اقدامات سے کیسے الگ تھلگ رہا ہے۔ ٹرمپ اور مودی دو ایسے نمونے ہیں جن کی موجودگی پاکستان میں بکھری قوم کو متحد کررہی ہے۔ کاتب تقدیر کا اپنا راستہ اور حکمت ہے۔ اس کی تدبیر انسانی فہم و گمان سے ماورا ہے۔ مزا تو تب آئے گا جب یہ سیاسی تحریک پنجاب میں گرم ہوگی اور اس کے اثرات ملک کے دیگر حصوں تک جائیں گے۔ سیاسی دھارے میں طالبان کو لانے کے لئے افغانستان میں منتیں کرنے والے پاکستان میں ایسے کسی عمل کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ دودھ مانگو (باقی صفحہ6بقیہ نمبر1)
گے تو کھیر دیں گے، کشمیر مانگو گے تو چیر دیں گے کا پیغام دینے والوں کے لئے یہ تصور ہی ہولناک ہے کہ حافظ سعید سیاسی قوت بن کر سامنے آکھڑا ہو۔
حافظ سعید کی تصویر ایک اخبار کے سالانہ کیلنڈر پر شائع ہونا معمول کی بات ہے لیکن بھارت اور امریکہ کے لئے بہت خاص بات ہے۔ یہی سوچ کا وہ فرق ہے جوکفر اور ایمان میں لکیرکھینچتا ہے۔ ہر سال کیلنڈر جاری ہوتے ہیں بھانت بھانت کی عورتیں سجا کر زیب ورق بنادی جاتی ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ناچ گانے والے کا پوسٹر چھپ جائے، دادوتحسین پاتا ہے۔ کسی گویئے کا کیلنڈر پر آنا فن کی پذیرائی سمجھی جاتی ہے۔ احکامات الہی کی بات کرنے والا، کشمیر کا مقدمہ لڑنے والا، پاکستان کے دشمنوں کو للکارنے والا کسی اخبار کے کیلنڈر کا حصہ بن جائے یہ قبول نہیں۔ یہ کتنا کربناک ہے، بھارتی پوسٹر بوائے کی مہم اس کا عکس ہے۔ بھارتی محبت کی درد زہ میں مبتلا آنکھ کھل جائے تو دیکھ لیںکہ جمہوریت کو متنوع نظام اور کثیرالاشتراکی ڈھانچے کی تبلیغ کرنے والوں کے لئے حافظ سعید کی سیاسی دھارے میں شمولیت پر کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔ یہ کیا فلسفہ ہے؟ یہ کیا منطق ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟ یہ کون سا لبرل ازم ہے؟ مکرر ارشاد ہے مقابلہ کشمیریوں کا خون بہانے والوں اور کشمیریوں کے لئے خون بہانے والوں کے درمیان ہے۔ گزشتہ دنوں دفاع پاکستان کونسل کے جلسے میں حافظ صاحب کو جانے سے روک دیا گیا تھا۔ انہوں نے فون پر خطاب کیا اور اپنے جرائم کی تفصیلات بیان کیں کہتے ہیں مجھے پشاور کے جلسے میں جانے سے روکا گیا اس کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہمارا سب سے بڑامسئلہ پاکستان کا دفاع ہے ہم نے سب نے مل کر انشا اللہ پاکستان کی حفاظت کرنی ہے جو آج دنیائے کفر کی آنکھوں کا کانٹا بن کر چبھ رہا ہے اور وہ ہمارے ایٹمی اثاثے برداشت نہیں کر پارہے ہیں۔
اللہ تعالی سے میں دعا کرتا ہوں کہ یااللہ توفیق عطا فرما کہ پاکستان آزاد پاکستان بن جائے۔ اللہ تعالی نے ہمیں ایٹم بم کی نعمت عطا فرمائی تھی اور اگر آج یہ پابندیاں لگی ہیں تو انشا اللہ تعالی پاکستان اس خطے کا سب سے بڑا اور انشا اللہ قوت والا شاندارمعیشت والا ملک بن جائے گا۔