معمولی سا صحافی
وہ اپنے شہر کا ایک معمولی سا صحافی تھا وہ روز صبح گھر سے نکلتا اور سکینڈلز کی تلاش میں سارے شہر کی خاک چھان کر شام کو گھر آجاتا آہستہ آہستہ اس پر انکشافات ہوناشروع ہوگئے اس نے دیکھا کہ شہر میں بہت سارے ادارے ایسے ہیں جو ملاوٹ ناصرف سر عام کرتے ہیں بلکہ انتظامیہ اور سیاستدانوں کی سر پرستی میں قوانین اور پولیس کو بھی اپنی جیب میں رکھتے ہیں وہ جس کسی کی بھی ملاوٹ کرنے کی نشاندہی کرتا انتظامیہ اور پولیس کار وائی کرنے کی بجائے ان سے رشوت لے لیتی اگر وہ کسی ہائی لیول کے مجرم کی نشاندہی کرتا تو پولیس اور انتظامیہ ان سے منتھلی کا ریٹ سیٹ کر لیتے یوں کاروائی کی بجائے شہر کے تمام چھوٹے بڑے مجرم انتظامیہ اور پولیس کی زیر سر پرستی مزید شیر بن جاتے اگر کہیں پر غلطی سے کوئی ایکشن ہو بھی جاتا تو وقتی ہوتا اور سیاستدانوں کی مداخلت پر پولیس اور انتظامیہ یہ بھی بے بس ہوجاتی اسی طرح ایک دن اس کے پاس علاقہ کے چند لوگ آئے جنہوں نے ایک فیکٹری مالک کی شکایت کی کہ وہ عورتوں اور بچوں سے جبری مشقت بھی کرواتا ہے وہ ان پر ظلم بھی کرتا ہے جگہ کا دورہ کرنے پر معلوم ہو کہ شہر کے مین داخلی راستے پر اس کی نسوار کی ایک بہت بڑی فیکٹری ہے وہ فیکٹری کے اندر گیا تووہاں کے دل ہلا دینے والے مناظر تھے فیکٹری کے ایک حصہ میں خواتین اور چھوٹے بچے نسوار پیک کر رہے تھے چند عورتیں ایسی بھی تھیں جن کے شیرخوار پانچ یا چھ ماہ کے بچے بھی ساتھ ہی لیٹے ہوئے تھے نسوار کی بدبو ایسی تھی کہ عام آدمی کے لیے وہاں کھڑا ہونا بھی محال تھا پتا نہیں وہ کس قسم کا کیمیکل تھا جو ناصرف فیکٹری کو اپنی بدبو کی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا بلکہ اُس کی بدبو دور دور تک پھیلی ہوئی تھی چونکہ معاملہ کافی سنگین اور ہائی لیول کا تھا لہذا اس نے کسی کو شکایت کرنے کی بجائے اپنے اخبار کے لیے سٹوری فائل کی اور جاننے والے تمام صحافیوں کے ذریعے اس خبر کودیگر اخبارات تک پہنچادیا یوں اگلے روز تقریباً ایک درجن اخبارات میں نسوار فیکٹری کے خلاف خبر شائع ہوگئی اس صحافی کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انتظامیہ ٹس سے مس تک نہ ہوئی معلوم ہو ا کہ اس فیکٹری کا افتتاح ایک صوبہ کے سپیکر اسمبلی نے بذات خود اپنے دست مبارک سے کیا تھا لہذا انتظامیہ اور پولیس کچھ بھی کرنے سے بے بس تھی اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ہمراہ مزید دیگر صحافیوں کے ہمراہ ڈی سی او کی خدمت میں حاضر ہو ا تو انہوں نے فوری ایکشن کی ہدایت کردی یہ اس کے لئے حیرت کی بات تھی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ڈی سی او بھی کسی نہ کسی بہانے سے اسے ٹرخادے گا اب اس صحافی کی ہمت اور حوصلے میں بھی اضافہ ہو گیا تھا اس نے ڈی سی او کی ہدایات کے مطابق محکمہ صحت کے آفیسر سے رابطہ کیا تو انہوں نے ٹرخا دیا پھر کسی سے اسے معلوم ہو ا کہ دو ماہ پہلے شہر میں وزیراعلیٰ کی طرف سے بطور ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر جس شخص کی تعیناتی ہوئی ہے وہ بہت ایماندار اور فرض شناس ہے وہ ڈی سی او کے احکامات اور اخبارات کی کٹنگ لے کر نئے ڈی ایم او کی خدمت میں حاضر ہوا ڈی ایم نے اگلے روز کے لیے متعلقہ محکموں کو پابند کیا کہ میٹنگ کرنی ہے اس نے معاملہ کو سیکرٹ رکھنے کے لئے انہیں فیکٹری کی چیکنگ کے بارے میں نہ بتایا یوں اگلی صبح ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر، ڈسٹرکٹ آفیسر برائے لیبر، ڈسٹرکٹ آفیسر برائے ماحولیات اور محکمے کے مزید دیگر ملازمین پر مشتمل ٹیم نے متعلقہ فیکٹری کا دورہ کیا تو وہاں کے مناظر انتہائی رقت آمیز تھے ابھی افسران نے بچوں کا انٹر ویو ہی شروع کیا تھا کہ فیکٹری کے مالکان میں سے ایک مالک یا پھر غالباً مالک کا بھائی وہاں پہنچ گیا اس نے دیکھتے ہی سب کو گالیاں نکالنا شروع کردیں افسران کو گریبا ن سے پکڑا اور مارنا شروع کردیایہاں تک کہ ان کے ڈرائیورکے ناک اور منہ سے خون بہنا شروع ہوگیا فیکٹری مالک کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی وہ اپنے ملازمین کو بار بار کہہ رہا تھا کہ ان سب کو گاڑیوں سمیت جلا دو اور ان کا نشان بھی نہیں ملنا چاہیے اس نے سب کو باری باری مارنا شروع کردیا اور صحافیوں کو ایک کمرے میں بند کردیا فیکٹری مالک نے تمام افسران کے فون چیک کیے ان میں موجود ریکارڈ نگ ضائع کردی اور صحافیوں کے کیمرے ،پرس ،موبائل وغیرہ ضبط کر لیے اسی اثنا ء میں فیکٹر ی مالکان کا وکیل وہاں پہنچ گیا جس نے فیکٹری مالک کو بتایا کہ یہ تو افسران ہیں اور تم نے ان کو مار کر موت کو گلے لگانے کی کوشش کی ہے مالک نے فوراً لڑکا بھیجا اور افسران کو ٹھنڈے مشروبات پیش کئے ڈی ایم او کے علاوہ تمام افسران نے خوف کے باعث وہ مشروبات پی لئے دوسری طرف کمرے میں بند اس صحافی کے پاس ایک موبائل جیب میں تھا جس سے اس نے متعلقہ تھا نے کو فون کرکے پولیس کو صورتحال سے آگاہ کیا اور ون فائیو پر بھی اطلاع دی فیکٹری مالکان کو شک ہوا تو انہوں نے اس صحافی کو بہت مارا اسی اثناء میں پولیس بھی آگئی پولیس کے آنے سے پہلے ہی تمام افسران وہاں سے جا چکے تھے پولیس کو فیکٹری مالک نے بتایا کہ یہاں کوئی نہیں ہے پولیس جانے ہی والی تھی کہ باہر چھپے ایک صحافی نے پولیس والوں کو بتایا کہ جس نے کال کی تھی وہ تو اند رہے پولیس نے زبردستی کمرے تک رسائی حاصل کرکے اس صحافی کو بازیاب کیا اور پولیس ا سٹیشن لے گئے اسی اثنا میں فیکٹری کا مالک بھی پولیس سٹیشن پہنچ گیا اور صحافی کے خلاف فیکٹری کے اندر گھس کر عورتوں کوتنگ کرنے کی درخواست دے دی صحافی نے تمام آفیسرز کا حوالہ دے کر آپ بیتی سنائی پولیس والوں نے جب متعلقہ محکمہ جات کے افسران کو فون کیا تو سب نے وہاں جانے کی تصدیق تو کی مگر تشدد سے انکار کر دیا البتہ ڈرائیور کے ساتھ فیکٹری مالکان کی جانب سے بدتمیزی کی تصدیق کی اب پولیس والوں کو صحافی پر شک ہوا اسی اثناء میں پولیس ا سٹیشن کا ایس ایچ او آگیا جو اس صحافی کو اچھی طرح جانتا بھی تھا اس نے محررکوصحافی کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے منع کر دیا دوسری طرف یہ بات دوسرے صحافی کے ذریعے شہر کے دیگر صحافیوں میں بھی پھیل گئی یوں صحافی اکٹھے ہوکر ڈی پی او کے پاس گئے جس نے متعلقہ پولیس سٹیشن کو فیکٹری مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا آرڈر دینے کا وعدہ کیا ابھی معاملہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا شہر میں صحافی دو گروپو ں میں تقسیم ہو گئے دوسرے گروپ کا خیال تھا کہ وہ فیکٹری مالکان سے براہ راست ملاقات کرکے انہیں اپنی حمایت کا یقین دلائیں گے اور اس طرح ان کے خرچہ پانی کا بھی بندوبست ہو جائے گا دوسری طرف وہ صحافی حالت خراب ہونے کے باعث ہسپتال داخل ہو ا تو پھرفیکٹری مالک کے آدمی اس کی تلاش میں وہاں پہنچ گئے پہلے تو وہ ہسپتال میں کمرے بدلتا رہا پھر بالاآخر جان بچانے کیلئے وہ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں شفٹ ہوگیا صحافی نے افسران کو فون پر سارا معاملہ بتایا تو انہوں نے صحافی کی اس معاملے سے الگ تھلگ رہنے کا کہا صحافی کے گلہ کرنے پر افسران نے بتایا کہ اگر وہ پولیس والوں کو سارا معاملہ بتاتے تو محکموں کی عزت پر حرف آتا تھا انہوں نے اگلے دن وہ فیکٹری سیل بھی کروائی تھی مگر کسی اہم شخصیت کے فون پر ایک گھنٹے بعد ہی فیکٹری کھول دی گئی اور اس وقت انتظامیہ ہائی لیول تک کچھ کرنے سے قاصر ہے مقامی وزراء کی سرپرستی کے باعث صحافی کی طرف سے فیکٹری مالکان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج نہ کروائی جا سکی بلکہ الٹا فیکٹری مالکان نے ان اخبارات کے خلاف دو کروڑ ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا جنہوں نے فیکٹری کے خلاف خبر یںشائع کی تھیںاب یہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ اس طاقتور فیکٹری مالک کے خلاف کون کاروائی کرنے کی جرت کرے گااور وہ صحافی کب تک اپنی جانے بچانے کیلئے ادھر اُدھر بھاگتا پھرے گا یہ ہمارے معاشرے کا ایک انتہائی تاریک پہلو ہے یہاں عام آدمی کیلئے تو قانون کی معمولی سی شق بھی پھانسی کا پھندا بن جاتی ہے مگر پھانسی کا حکم پانے والے طاقتور آدمی کے معمولی ملازم کو بھی ایک حکم کے ذریعے پھانسی لگنے سے روک دیا جاتا ہے اس طرح کی فیکٹریاں ہمارے ملک کے ہر شہر میں موجود ہیں جو انتظامیہ اور سیاستدانوں کی پشت پناہی پر لاکھوں لوگوں کی جانوں سے کھیل رہی ہیں ہم سب کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں اب تو ہم یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ جو گھڑے ہم دوسروں کے لیے کھودرہے ہیں ان میں ہمارے اپنے ہی بچے گرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں راہِ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!۔ میاں بابر صغیر کا کالم ویب سائٹ www.babarsaghir.com پر بھی پڑھا جا سکتا ہے ۔