سیاست دانوں نے تاریخ سے کیا سیکھا؟
پاکستان میں سیاست دانوں کا تجربہ بڑا تلخ ہے۔ مگر اس تجربے سے انہوں نے سیکھا کچھ نہیں۔ اگر ذرہ برابر بھی سبق سیکھ لیا گیا ہوتا تو آج ہمارے چاروں طرف جو تماشا برپا ہے، یہ نہ ہوتا۔ نہ اقتدار سے نکالے جانے کے شکوے ہوتے، نہ منصفوں کو اپنے انصاف کی قسمیں اٹھانا پڑتیں۔ سیاست دان اقتدار کی جنگ میں ہمیشہ پوشیدہ قوتوں پر تکیہ کرتے رہے۔ اس خوش فہمی میں کہ فقط اقتدار ہی باعث طاقت و تکریم ہے حالانکہ جو لولا لنگڑا اقتدار ان کو عطا ہوتا رہا وہ محض باعثِ رسوائی ٹھہرا۔ مگر یہ شوقِ اقتدار تھا، یا پھر اقتدار سے باہر رہ جانے کا خوف جو انہیں اس روش پر چلنے پر مجبور کرتا رہا۔ بے نظیر کو بالآخر اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہوا، اور انہوں نے اس چکر سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ آگ و خون کا گہرا سمندر عبور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی۔ اپنا پورا خاندان قربان کر دیا تھا۔ دو دفعہ اقتدار سے بے دخلی کی ذلت وہ برداشت کر چکی تھیں۔ جلا وطنی میں انسان اپنے معروض سے باہر نکلتا ہے، تعصبات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے۔ ان کو طویل سوچ بچار کا موقع ملا۔ جلسے، جلوس اور نعروں کے ہیجان سے کچھ دیر دور رہ کر جب انہوں نے ٹھنڈے دل سے غور کیا تو واضح نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دیر نہ لگی۔ جمہوریت، عوام کا حقِ حکمرانی اور سیاست کاروں کی سیاست میں اپنی بقا، یہ تینوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ نواز شریف کا تجربہ تھوڑا مختلف ضرور تھا مگر کم تلخ نہیں تھا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ سیاست دانوں کی اپنی لڑائی آمریت پسندوں کو حکمرانی کا موقع دیتی ہے؛ چنانچہ یہ لڑائی اگر مکمل طور پر بند نہیں ہو سکتی تو کم از کم اس کی کچھ شرائط طے کرنا، حدود مقرر کرنا ضروری ہے۔ اور یہ عہد کرنا ضروری ہے کہ جمہوریت کے خلاف کسی تیسری قوت کی سازش کا حصہ نہیں بنا جائے گا۔ میثاق جمہوریت اسی سوچ کا شاخسانہ تھا۔ جمہوریت کی طرف یہ ایک شاندار قدم تھا۔ مگر ان دیکھی قوتیں جو نصف صدی سے سیاست میں مورچہ زن تھیں، آسانی سے یہ مورچہ چھوڑنے کو تیار نہ تھیں؛ چنانچہ ان کا اثر و رسوخ جمہوریت کے بعد بھی مختلف اوقات میں نظر آتا رہا۔ سیاست دان ان غیر مرئی قوتوں کے نفسیاتی اثر اور خوف سے پوری طرح آزاد نہ ہو سکے مگر اقتدار منتقل ہو گیا۔ جمہوریت نے دس سال پورے کر لیے۔ اختیار کی لڑائی مگر ابھی جاری ہے۔ آمریت نئے روپ دھار کر سامنے آ رہی ہے۔ نواز شریف اس کی زندہ اور جیتی جاگتی مثال ہیں۔
سیاست دان اگر تاریخ سے سبق سیکھ لیتے تو تاریخ اپنے آپ کو نہ دہراتی۔ پاکستان بننے کے فورا بعد نوکر شاہی نے یہ طے کر لیا تھا کہ ملک چلانے کے لیے سیاست دانوں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سوچ کا اظہار قائد اعظم کی زندگی میں ہی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ ان کے کئی احکامات تھے جو نظر انداز کر دیے گئے۔ کئی بیانات تھے جو چھپا لیے گئے تھے، اور چھاپنے سے روک دئیے گئے تھے۔ سیاست دان اس صورت حال کو اگر بھانپ لیتے تو آغاز سفر میں ہی کچھ اصول طے کر لیے جاتے۔ مثلا یہ کہ طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں۔ حق حکمرانی صرف عوام کو حاصل ہے اور عوام کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار صرف ان کے منتخب نمائندوں اور قانون ساز اداروں کو ہو گا۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔ نوکر شاہی نے فیصلہ سازی کے جملہ اختیارات اپنے حق میں محفوظ کر لیے۔ خواجہ ناظم الدین کی برطرفی اور پہلی قانون ساز اسمبلی کا خاتمہ اس کا واضح اظہار تھا۔ اس موقع پر پہلی دفعہ پاکستان میں عوام کے حقِ حکمرانی اور بالا دستی کا تنازع کھڑا ہوا۔ عدالتیں اگر چاہتیں تو اس تنازع کا فیصلہ جمہور اور جمہوریت کے حق میں کرکے ہمیشہ کے لیے یہ باب بند کر سکتی تھیں مگر یہ فیصلہ نوکر شاہی کے حق میں ہو گیا اور جمہوریت کے مسلسل قتل کا ایک راستہ کھل گیا۔ سیاست دان اگر اس وقت اس صورت حال کا پورا ادراک کر لیتے اور مزاحمت پر اتر آتے تو یہ سلسلہ وہیں پر ختم ہو جاتا۔ کسی قسم کی مزاحمت اور ردِ عمل کے خدشے سے پاک نوکر شاہی نے ایوب خان کی قیادت میں وہ کام کھل کر کرنے کا فیصلہ کیا، جو اب تک کسی نہ کسی آڑ میں کیا جاتا تھا۔ ایوب خان نے منتخب اداروں کو نااہل قرار دینے کا حکم جاری کیا جو ایبڈو کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بدنام ترین حکم بن گیا۔ اس شاہی حکم کے تحت 75 سیاست دانوں کو سات سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا۔ اس سے پہلے ایوب خان نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں عوامی لیگ، اور عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگا دی تھی۔ ایبڈو میں ایک آرٹیکل نمبر چھ تھا جس کے تحت چھ ہزار سیاسی کارکنوں کو نا اہل قرار دیا گیا۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی سیاست سے بے دخلی کے بعد جو سیاست دان باقی بچے ان کے لیے ایبڈو کا آرٹیکل نمبر سات استعمال ہوا۔ اس آرٹیکل میں لکھا گیا کہ کوئی بھی شخص جسے کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہو وہ خود ہی سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کر سکتا ہے، اس صورت میں اس کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے خلاف انکوائری کی جائے گی، اور جرم ثابت ہونے پر سات سال کے لیے نا اہل قرار دیا جائے گا۔ اس آرٹیکل کے تحت شیخ مجیب الرحمن، حسین شہید سہروردی جیسے بڑے لیڈروں کو نا اہل قرار دیا گیا۔ مولانا بھاشانی کو گرفتار کیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ قائد اعظم کے قریبی ساتھی، مسلم لیگ کے چوٹی کے لیڈر اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو جنوری انیس باسٹھ میں کراچی میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور غداری کا الزام تھا۔ سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت ان کو ایک سال تک بغیر سماعت کے جیل میں رکھا جا سکتا تھا۔ اس گرفتاری کے خلاف حبس بے جا کی درخواست پر ایوب خان نے یہ آرڈر جاری کر دیا کہ عدالتوں کو حبس بے جا کی درخواستوں کی سماعت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ایوب خان کے ان اعلانات اور اقدامات کو کسی عدالت نے نہ تو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیا اور نہ ہی کسی نے بالا دستی کا سوال اٹھایا حالانکہ بالا دستی کا سوال اٹھانے کا موقع وہی تھا۔ سیاست دانوں کی اہلیت، نا اہلی، اور عوام کے حقِ حکمرانی کے سوال پر ایک بڑی قانونی جنگ بنتی تھی۔ یہ جنگ جن لوگوں نے لڑنے کی کوشش کی عدلتوں نے ان کو نظریہ ضرورت کی نظیر دکھا کر خاموش کر دیا۔ اس طرح درجن بھر وزیر اعظم کرپشن یا نا اہلی کے الزامات کے تحت بر طرف کر دئیے گئے جن میں نواز شریف صاحب بھی شامل رہے ہیں۔ اب کی بار جو نواز شریف صاحب کو اقامہ رکھنے یا اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے، یا ڈیکلیئر نہ کرنے کے جرم میں اقتدار سے نکال دیا گیا۔ یا ان کو اپنی ہی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے سے روک دیا گیا تو وہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ نواز شریف صاحب اگر اس سوال کو تاریخی تناظر میں دیکھتے تو انہیں خود بخود اس سوال کا جواب مل جاتا۔ انہیں بار بار یہ سوال اٹھانے کی زحمت نہ گوارا کرنا پڑتی۔ تاریخی تناظر میں اس سوال کو دیکھنے سے ہو سکتا ہے کہ وہ تاریخ سے خود بھی کوئی سبق سیکھیں اور دوسرے سیاست دانوں کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیں، کہ سیاست دانوں کی روش میں اب بھی کوئی بڑی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی اور آمریت مختلف شکلوں میں ان کے ارد گرد موجود ہے۔