اے دیوتا ہم جنگوں کی دعائیں مانگتے ہیں

ہر طرف دھماکے ہو رہے تھے ، زبردست لڑائی اپنے عروج پہ تھی۔ کہیں جنگی ترانوں کی آوازیں آتی تھیں، کہیں نقارے بجتے تھے ، کیا بچے کیا بڑے سب میں ایک عجیب ہی طرح کا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ گلی میں کھڑے ہو کے نظر گھروں کی چھتوں پہ دوڑائی جاتی تو کوئی چھت ایسی نہ ملتی جس پہ اپنے ملک سے محبت کا اظہار کرنے کے لیے قومی پرچم نہ لگا ہوا ہو۔ روز چمچماتی نئی یونیفارمز میں رضاکار بھی سڑکوں پہ لیفٹ رائٹ کرتے نظر آتے اور انہیں دیکھ کے ہر بندہ واری صدقے ہوتا رہتا۔ دن رات جنگ کے حق میں لہو گرما دینے والی تقریریں ہوا کرتیں، لوگ سنتے نہ تھکتے اور لیڈر بولتے نہیں تھکتے تھے ۔ باقی کسر عبادت کدوں میں کاہن اور روحانی پیشوا لوگ پوری کر دیتے تھے ۔ وہ اپنی پوجا پاٹ کے دوران بھی ایسی اثر انگیز تقریریں کرتے کہ لوگ عبادت کدے سے نکلتے ہی ایسا محسوس کرتے جیسے دیوتاں نے انہیں صرف جنگ کرنے کے لیے بنایا ہے ۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ بندوقیں اٹھائیں اور دشمنوں میں گھس کر ان کے دماغ کھول دیں۔
نئی بٹالین کو ایڈوانس کرنا تھا۔ فوجی دستوں کی میدان جنگ روانگی میں ایک دن رہتا تھا۔ عبادت کدے میں عوام، خواص، رضاکار، فوجی ان سب لوگوں کے گھر والے اور ایک عالم جمع تھا۔ جو اندر نہیں تھے وہ باہر کھڑے تھے ۔ ان سب کی آنکھوں میں جیت کی امنگ اور چہروں پہ غیظ و غضب کی سرخی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے فوجیوں کے ساتھ یہ سب بھی دشمن پہ ٹوٹ پڑنے والے تھے ۔ جو سپاہیوں اور رضاکاروں کی فیملی میں سے تھا وہ تو گویا فخر کے ساتویں آسمان پر تھا اور جن کے باپ بھائی اس گروہ میں شامل نہیں تھے وہ ان سب کو رشک بلکہ حسد سے دیکھتے تھے ۔
عبادت کدے کی رسومات کا آغاز ہوا۔ پہلے ایک مڑے ہوئے سینگوں والے مینڈھے کی قربانی دی گئی اور اس کے بعد کاہنوں کے جاپ شروع ہوئے ۔ آواز جب اپنی پوری بلندی پہ پہنچی تو نقاروں اور ڈھول والے بھی ان کا ساتھ دینے لگے ۔ دھمک ایسی تھی کہ عبادت کدے میں پڑا ہر بت ہلتا تھا۔ جب دھمک بتدریج تیز ہوئی تو جوش کے عالم میں سارے حاضرین کھڑے ہو گئے اور انہوں نے مٹھیاں بھینچی ہوئی تھیں اور ان کے نقش بگڑے ہوئے تھے اور وہ دل کی گہرائیوں سے دشمن کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے ۔ اسی عالم میں کاہنوں اور روحانی پیشواں نے دعا مانگنے کا عمل شروع کر دیا (ان لوگوں کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ اتنی شدید رقت اور جذبے سے اس عبادت کدے میں دعا شاید ہی کبھی مانگی گئی ہو)۔
پیشواں نے اپنے منہ اوپر کی جانب کیے ہوئے تھے اور ان کی آنکھیں بند تھیں اور وہ دعا مانگتے جاتے تھے ، "اے دیوتا ہمارے نوجوان سپاہیوں کی حفاظت فرما، اے دیوتا ان پر اپنا خاص رحم کر، ان کی جانوں کو خطرے سے محفوظ رکھ، وطن کی حفاظت میں انہیں سرفراز کر، ان کو اور زیادہ ہمت اور استقامت دے ، اس خاک و خون کے میدان میں چھلانگ لگاتے وقت انہیں باحوصلہ، باتدبیر، مضبوط اور ناقابل شکست بنا، دشمن کو نیست و نابود کرنے میں ہر طرح سے ان کی مدد کر، انہیں اس قابل بنا دے کہ ان کا ملک ان پہ فخر کرے اور ان کی لڑائی کے بعد ان کا وطن اس قدر سربلند ہو کہ صدیوں تک دشمن ادھر کا رخ کرنے کی ہمت نہ کرے ۔" پیشواں کی دعا اپنے پورے جوش و جذبے سے چل رہی تھی کہ بہت لمبی داڑھی اور پیلا ترین جھریوں سے بھرا چہرہ لیے ایک دراز قد آدمی عبادت کدے میں داخل ہوا۔ اس نے لمبا سا کوئی چغہ اوڑھا ہوا تھا۔ بارعب اور پراسرار سا نظر آتا وہ شخص چپ چاپ چلتا گیا، لوگوں نے اس کی جانب دیکھا بھی لیکن کسی کی طرف دیکھے بغیر وہ سیدھا روحانی پیشوا کے پاس جا کے کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اب بھی بند تھیں اور جس کا چہرہ اب بھی اوپر اٹھا تھا اور جو اب بھی پوری آواز سے گڑگڑا کے دعا مانگ رہا تھا، "اے دیوتا، اے ہمارے ملک کو اپنی حفاظت میں رکھنے والے ، اے مالک، ہمارے ہتھیاروں پر بھی اپنا رحم کرنا، ہمارے دلوں کو بھی سخت کر دینا اور ہمیں فتح عطا کرنا کہ ہم تیرے نام لیوا ہیں۔"
دعا ختم ہوتے ہی دراز قد بوڑھے نے پیشواں اور کاہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک طرف ہونے کے لیے کہا۔ اس کے چہرے اور قد کی ہیبت کچھ ایسی تھی کہ وہ لوگ مجبور ہو گئے۔ اب بوڑھا لوگوں کے سامنے تھا۔ سب لوگ اس پراسرار اور بارعب بوڑھے کی جانب دیکھ رہے تھے ۔ اس نے بھاری اور گونجنے والی آواز میں کہا، "میں دیوتاں کی طرف سے تمہارے لیے پیغام لایا ہوں۔" لوگ ایک دم چوکس ہو گئے کہ یہ کیا ہونے والا ہے ۔ دعوی بہت بڑا تھا لیکن شخصیت کے سحر میں گرفتار پیشوا اور عام بندے سبھی چپ تھے ۔
"دیوتا کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے پیشواں کی اور تمہارے کاہنوں کی اور تمہارے دلوں کی ہر آواز سن لی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ سب قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن تم پہ انہوں نے میری بات صرف ایک دفعہ سننا فرض کیا ہے ۔ انہوں نے مجھے بھیجا ہے کہ میں تم پر یہ سب کچھ کھول کر جتلا دوں کہ جب بھی تم ایک دعا مانگتے تھے وہ دو دعاں پر مشتمل ہوتی تھی۔ جیسے تم میں سے ایک نے پچھلے دنوں بارش کی دعا مانگی کیونکہ اس کی فصل کو پانی چاہئیے تھا لیکن اصل میں وہ اپنے اس ہمسائے کے لیے عذاب مانگ بیٹھا جس کا گھر مٹی کا بنا ہوا تھا۔ تو خبردار، اپنی دعاں کے ساتھ کسی کے لیے عذاب مانگتے ہوئے چوکنے رہو اور سوچ کے مانگو جو بھی تم مانگنا چاہتے ہو۔ تو آج جو کاہنوں نے دیوتاں سے مانگا اور جو پیشواں نے فریاد کی وہ سب بھی دعا کا ایک رخ تھا۔ مجھے دیوتاں کا حکم ہے کہ ان دعاں کا دوسرا رخ تمہارے سامنے رکھ دوں۔
جب تم نے دعا مانگی کہ تمہیں فتح نصیب ہو اور تمہارے لڑنے والے کامیاب ہوں تو عین اس وقت تمہاری دعا کا دوسرا چہرہ یہ تھا کہ اے دیوتا، ہماری مدد کر تاکہ ہم اپنے گولوں سے دشمنوں کے سپاہیوں کے چیتھڑے اڑا سکیں۔ دیوتا ہمیں کامیابی دے کہ ہم ان کے سرسبز کھیتوں میں انہی کے سڑے ہوئے محب وطن لاشے ڈھیر کر سکیں۔ دیوتا ہمارے ساتھ رہ تاکہ بم دھماکوں سے زخمی ان کے جسموں کی کراہیں ہم اپنی بھاری جنگی مشینری میں دبا سکیں۔ ہمیں نصرت دے کہ ہم ان کے پرسکون گھروں کو آگ کا گولہ بنا دیں۔ ہماری اعانت فرما کہ ہم ان کے چھوٹے(باقی صفحہ6بقیہ نمبر2)

 بچوں کو بے آسرا کر کے بھوکا ماریں اور ہمارا ہاتھ تھامے رکھ کہ ان کی عورتوں کو ہم بے پردہ و بے عصمت کر سکیں۔ بس کچھ بھی ایسا ہو کہ وہ مرنے کو ترسیں اور انہیں موت نہ آئے اور وہ جب تجھے پکاریں دیوتا، تو انہیں پتہ لگے کہ ہم، تیرے پجاری، تیری رحمت کے سائے میں ہیں اور تو اس وقت ان کی آواز بالکل مت سننا۔ ہماری خاطر مت سننا کیونکہ ہم تیرے چہیتے ، تیرے چاہنے والے ، تیرے نام لیوا، تیرے سیوک تجھ سے یہی دعا کرتے ہیں۔ جب تم نے چاہا کہ تمہارے جوان چمکتے چہروں کے ساتھ لوٹیں تو اسی وقت تمہاری دعا کا دوسرا چہرہ یہ بھی تھا کہ لکیروں کی دوسری جانب چہروں تو کیا دن کی روشنی میں بھی چمک باقی نہ رہے ، جو دن نکلے وہ مایوسی کا ہو، جو رات آئے وہ عذاب کی ہو اور جو وقت گزرے وہ نہ گزرنے والا ہو۔ اور یہ سب تم نے دیوتاں کو اپنی محبت کے واسطے دے کر، اور رو کے ، اور گڑگڑا کر مانگا تھا۔ اب مجھے بتا تمہارا کیا پروگرام ہے ؟ اگر تمہاری سب دعائیں اب بھی وہی ہیں تو میں جا کر تمہارا پیغام دیوتاں تک پہنچا دوں گا۔"
بعد میں لوگوں کو سمجھ آئی کہ وہ کوئی پاگل انسان تھا جو نہ جانے کہاں سے آ کے ساری دعاں کی ایسی تیسی کر گیا، ویسے بھی اس کی باتوں میں کوئی وزن نہیں تھا۔ اس کے جانے کے بعد بہت عرصے تک لوگوں میں اس کی باتیں ہوتی رہی تھیں۔
(یہ مارک ٹوئن کی کہانی "دی وار پرئیر" کا من چاہا اور مختصر کیا گیا ترجمہ ہے نیز یہ کہ اس بازخوانی میں اس بہترین اردو ترجمے سے بہت زیادہ مدد لی گئی ہے جو استاد گرامی اسد محمد خاں صاحب "دعائے جنگ" کے نام سے کر چکے ہیں اور جو بلاشبہ ایک لازوال فن پارہ ہے ۔)