باغ کانفرنس اور کشمیر کا حسن
جس دن سینٹ الیکشن کا میلہ مویشیاں سجااس دن اس خاکسار نے راولپنڈی سے آزادکشمیر کے خوبصورت شہر ضلع باغ کی طرف علی الصبح ہی سفر شروع کر دیا کہ جہاں مجلس ورثائِ شہدائِ جموں وکشمیر کی طرف سے کشمیر کے شہیدوں کی یاد میں ایک بڑی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا ہم بھائی خوشحال خان کی گاڑی میں مری کوہالہ سے ہوتے ہوئے دھیر کوٹ کے راستے ارجہ پہنچے تو بارش نے آن لیا لیکن شہدا کشمیر کے ورثائ، امیر المجاہدین مولانا محمد مسعود ازہر کے جانبازوں کے تعاون سے موٹر سائیکلوں اور کاروں پر مشتمل ایک بڑی ریلی کی صورت میں وہ ہمیں لے کر ضلع باغ کے قدیم اور معروف علمی ادارے دارالعلوم تعلیم القرآن میں منعقدہ کانفرنس میں پہنچے ایک طرف بارش اپنی شدت دِکھا رہی تھی تو دوسری طرف کشمیر کے شہیدوں کی یاد میں منعقدہ کانفرنس شیخ الحدیث مولانا امین الحق فاروقی کی زیرسرپرستی اور صدر انجمن تاجران حافظ محمد طارق کی زیرصدارت پوری آب و تاب سے جاری تھی۔۔
مولانا ابوجندل حسان اور مولانا عبدالعزیز ایثار اور مولانا اتفاق حسین نے اپنے خطابات میں شہدا کشمیر کے ورثا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے شہید جگر گوشوں کا لہو رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ شہیدوں کا خون جلد یا بدیر رنگ لا کر رہے گا اور آزادی مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کا مقدر بنے گی۔انہوں نے کہا کہ شہدا کی عظمتوں کا گواہ خود قرآن مقدس ہے یہ فرمان قرآن ہے کہ جو اللہ کے راستے میں قتل کر دیا جائے اسے مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہے انہوں نے کہا کہ آزادی کشمیر کی جنگ تکمیل پاکستان کی جنگ ہے جب تک پاکستان کی شہ رگ بھارتی تسلط سے آزاد نہیں کروالی جاتی اس وقت تک کشمیر کا جہاد جاری رہے گا۔شیخ الحدیث مولانا امین الحق فاروقی اور حافظ محمد طارق نے جہاد کشمیر کے حوالے سے مولانا محمد مسعود ازہر اور ان کے جانبازوں کے کردار اور اس خاکسار کے کالموں کو سراہتے ہوئے کہا کہ باغ کے تاجر ہوں علما ہوں یا عوام کشمیر کی آزادی کے لئے دامے درمے سخنے اپنا کردار جاری رکھیں گے انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر کے مسلمانوں کے دل مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں کشمیر کے مظلوم مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو بھلانا ناممکن ہے انہوں نے حکومت آزادکشمیر سے مطالبہ کیا کہ آزادکشمیر کو مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک جہاد کا حقیقی بیس کیمپ بنایا جائے۔
کانفرنس سے آخری خطاب اس خاکسار کا تھا میں نے اپنے خطاب میں عرض کیا کہ بارش کی شدت اور موسم کے حسن کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب کشمیر نے پاکیزگی کی طرف سفر شروع کر دیا ہے 6فروری کے دن آزادکشمیر کی حکومت اور اپوزیشن نے مل کر متفقہ طور پر ختم نبوت کے باغی ٹولے کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر جہاد کشمیر کی کامیابی کی طرف عملی قدم اٹھایا ہے کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان بھارتی درندوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہادتوں کے جام نوش کر چکے ہیں پاکستان کے بعض سیاست دانوں اراکین پارلیمنٹ حکمرانوں اور سیکولر میڈیا کا جہاد کشمیر کے حوالے سے کردار نہایت مشکوک رہا ہے حکمرانوں اور میڈیا کا یہی مشکوک کردار ہی آزادی کشمیر کی راہ میں رکاوٹ ہے بھارت میں گائے کو کاٹنے کا الزام لگا کر مسلمانوں کے گلے کاٹنا ہندوئوں کی عبادت بن چکی ہے بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ ہو گجرات کے مسلم کش فسادات ہوں یا ٹرین میں مسلمانوں کو زندہ جلانے کے واقعات۔۔
یہ سب بھارت کا مکروہ خونی چہرہ واضح کر رہے ہیں۔بھارتی فوج کے درندوں نے ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو گن کے زور پر یرغمال بنا رکھا ہے لیکن مجاہدین کشمیر کی جدوجہد سے بھارتی فوج بھی لرزہ براندام ہے صرف بھارتی ہندو ہی انتہا پسند نہیں ہیں بلکہ بھارت کی فوج بھی ہندو انتہا پسندی کی آگ میں جل کر مسلمانوں سے انتقام لے رہی ہے لیکن ہم شہدا کشمیر کے ورثا کو یقین دِلاتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کشمیری مسلمانوں کے شانہ بشانہ جدوجہد آزادی کشمیر میں آخری فتح تک شریک رہیں گے صبح دس بجے سے شروع ہونے والی کانفرنس کا اختتام اذان عصر پر ہوا۔عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم باغ سے براستہ ڈھلی لسڈنہ ضلع حویلی کہوٹہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں 4مارچ کو صبح 11بجے فاروڈ کہوٹہ کے شیر دل باسیوں نے شہدا کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کر رکھا تھا۔ 3 مارچ کی شام جب ہم باغ شہر سے نکلے تو بارش کا سلسلہ شروع تھا ہمارے ڈرائیور بھائی عامر خطرناک پہاڑی سلسلے کو بڑے ماہرانہ انداز میں کراس کرتے چلے جارہے تھے میرے دائیں جانب بلند و بالا پہاڑ اور بائیں جانب سینکڑوں فٹ ہولناک کھائیاں تھیں رات تقریبا8بجے کا وقت ہوگا کہ کشمیر کے حسین موسم نے ایک دفعہ پھر توبہ شکن انگڑائی لی۔اب آسمان سے پانی برسنے کی بجائے روئی کے گالوں کی طرح نرم و نازک برف کی برسات شروع ہوچکی تھی دیکھتے ہی دیکھتے ہماری گاڑی یا سڑک ہی نہیں بلکہ فلک بوس پہاڑوں نے بھی برف کی سفید چادر کو اوڑھنا شروع کر دیا موسم کا حسن اور دلفریباں اپنی جگہ پر
مگر ٹوتے پھوٹے خطرناک پہاڑی راستے کی پھسلن نے گاڑی کے سفر کو جاری رکھنا مزید خطرناک بنا دیا۔لسڈنہ کے قریب فاروڈ کہوٹہ سے باغ کی طرف آنے والی کئی گاڑیاں پھنس چکی تھیں عامر بھائی کی تمام تر مہارت برف کی پھسلن کے سامنے عاجز آچکی تھی چیونٹی کی چال چلتے ہوئے بھی جب گاڑی خود بخود ہی پھلسنا شروع ہوتی تو بھائی سیف اللہ مولانا عبدالعزیز اور بشارت معاویہ اور بھائی نذیر احمد نے بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا وِرد شروع کر دیتے فاروڈ کہوٹہ اب تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا مگر پھنسی ہوئی درجنوں گاڑیوں کے ڈرائیور بھائیوں نے ہمیں مخلصانہ مشورہ یہی دیا کہ اگر مزید آگے بڑھے تو ممکن ہے کہ آپ قیامت تک کی نیند میں چلے جائیں چنانچہ ہم نے واپس باغ کی راہ لی۔ اس موقع پر مقامی کشمیری مسافر بھائیوں نے چاروں طرف پھیلی ہوئی برف میں جان توڑ دھکا لگا کر ہماری گاڑی کو واپسی کی راہ پر ڈالنے میں جو سنہرا کردار ادا کیا وہ یادگار کردار ہمیشہ ہمارے دلوں میں ثبت رہے گا۔
رات ساڑھے 12بجے باغ اور پھر وہاں سے براستہ راولاکوٹ ہجیرہ یا عباس پور چڑی کوٹ ساڑھے7گھنٹے کا پہاڑی سفر کرکے صبح تقریبا 7بجے ضلع حویلی فاروڈ کہوٹہ پہنچے جہاں ہمارا استقبال کہوٹہ کی مشہور علمی شخصیت اور گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول کے بزرگ استاد قاری حمید الرحمن نے بڑی محبت سے کیا۔ میرے ساتھی تو رات بھر کی تھکاوٹ اتارنے کے لئے صرف دو گھنٹوں کے لئے خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگے مگر اس خاکسار نے قاری حمید الرحمن کے ہمراہ قریب ہی واقع شہدا کشمیر کے گھروں میں جانے کی ٹھان لی۔70سالہ بزرگ چوہدری اکبر دین 1964 میں جنہوں نے پونچھ میں ایک کارروائی کے دوران اپنے ہاتھوں سے کئی انڈین فوجی مردار کئے تھے ان کا بیٹا ظہیر اکبر کہ جس کی عمر ابھی صرف 20سال تھی سال 2016 میں نوگام بارہ مولا میں بھارتی فوج کے درندوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا تھا میں نے شہید کے باپ اور کشمیر کے غازی بوڑھے اکبر دین سے سوال کیا کہ 1963-64 میں آپ خود انڈین آرمی کے مدمقابل رہے کبھی اوڑی سیکٹر کبھی پونچھ میں داد شجاعت دیتے رہے اور پھر 2016 میں آپ کا0 2سالہ لخت جگر جیش محمدۖ کا مجاہد بن کر کشمیر میں جام شہادت نوش کر گیا آزادی کشمیر میں 53سالوں تک شریک رہ کر آپ نے جو کارنامے سرانجام دئیے ان میں سے کچھ ہم سے بھی شیئر کیجئے اس غازی کشمیر نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا کہ میں نے جو کچھ بھی کیا اللہ کے لئے کیا تھا بس دعا کریں کہ اللہ قبول فرمائے