ایم ایم اے کی بحالی
انتھک محنت اور جد و جہد کے بعد دینی ومسلکی جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو بحال جبکہ مولانا فضل الرحمان کو قائد اس کا باضابطہ صدر منتخب کر دیا گیا ہے ۔ ایم ایم اے کی اونر شپ کی بہتی گنگا میں نئے منتخب کردہ سیکرٹری جنرل ایم ایم اے لیاقت بلوچ نے بھی ہاتھ دھولیے ہیں۔ اسلامی و روشن خیال پس منظر سے تعلق رکھنے والے اس غیر منطقی جداگانہ اتحادمیں کچھ چھوٹی مسلکی پارٹیاںبھی اشنان کے لیے تیار ہیں۔متحدہ مجلس عمل کے انتخابی اتحاد تک کے فطری مرغوبے میںچھ پارٹیاںجماعت اسلامی ، جے یو آئی (ف)، اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت علمائے پاکستان،مرکزی جمعیت اہل حدیث اوراسلامی تحریک پاکستان شامل ہیں جنہوں نے چار و ناچار ایک انتخابی نشان اور ایک علم تلے 2018 کا تاریخ ساز الیکشن لڑنے کی ٹھان لی ہے۔یہ دیکھنا بڑا دلچسپ ہو گا کہ ایم ایم اے کی دو بڑی پارٹیاں اپنے کتابی اتحاد کو صرف خیبرپختون خواہ اور بلوچستان اتحاد تک ہی محدود رکھیں گی،یا پورے پاکستان میں اس کا دائرہ کار پھیلایا جائے گا!! جنرل الیکشن میں مولانا فضل الرحمان موقع بھانپ کر پنجاب ، سندھ اور فاٹا کے حکمرانوں سے شطرنج کے گھوڑے گھمانے کا کھیل کھیلیں گے یا جماعت اسلامی( جوکہ کبھی بائیکاٹ کا نعرہ مستانہ فضاء میں بلند کردیتی ہے اور کبھی دوسروں کو کندھا دیتے دیتے اپنا کندھا جھکا دیتی ہے) سراج الحق کی حکیمانہ قیادت میں پی ٹی آئی کو چکمہ دے کر کے پی میں ایک پاورفل اتحاد ی کا روپ دھار نے میں کامیاب ہوتی ہے۔ حقیقت پر مبنی بات ہے کہ جماعت اسلامی کے نام میں کچھ ایسا ہے کہ لبرلز، فاشسٹ، روشن خیال ، بائیں بازو والے اور دنیا داراسے امریکہ کی پاکستان میں من مانی چلانے کی راہ میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی آگئی تو پھر شاید کشکول اٹھانے کا موقع نہ ملے ،اور لامحالہ کشکول کا گن چکر ختم ہونے سے ووٹ کا رخ بھی مڑ سکتا ہے ۔ایم ایم اے کی بحالی میں جہاں مسلم لیگ ن کو فرق پڑے گا وہاں تحریک انصاف کو بھی کے پی میں شدید دھچکا لگنے کے امکانات ہیںکیوں کہ تحریک انصاف کے ساتھ عشروں سے چلنے والے اکبر ایس بابر،جسٹس (ر) وجیہ احمد ، فوزیہ قصوری، عادل انصاری اور جنون کے سنگر سلمان احمدکے مطابق اب تحریک انصاف خود سٹیٹس کو اور ون مین شو پارٹی بن کر رہ گئی ہے جہاں صرف پیسہ پھینکنے والے کی بات سنی جاتی ہے۔ایک دوسری عام روایت متواتر چلی آرہی ہے کہ لوگ جماعت اسلامی کو اس لیے لوگ ووٹ نہیں دیتے کہ جماعت اسلامی جب اسلام کا نعرہ لگاتی ہے تو اسے بغیر کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے اکیلے ہی میدان میں کود ناچاہیے ۔حالانکہ اگر مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی ، پی پی پی یا کوئی اور جماعت کسی پارٹی سے محض سیاسی انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹ منٹ کر کے الیکشن لڑتی ہے تو اس جماعت کو خوب سراہا جاتا ہے ۔ پیمانہ سب کے لیے ایک سا ہونا چاہیے کہ کل اللہ کے ہاں پیمانہ عدل کسی کالے گورے ، عربی عجمی، چھوٹے بڑے ، دینی و دنیاوی، سیاسی و سماجی ، لبرل و روشن خیال ، معتدل و فاشٹ اور دائیں بائیں کی تمیز کے بغیر چلے گا۔ ایم ایم اے کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور سینٹر سراج الحق کے مطابق چند اصول وضع پاگئے ہیں جن پر ایم ایم اے کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ (1) ایم ایم اے میں سب جماعتوں کی حیثیت برابرہوگی۔(2) صوبوں اور اضلاع کی سطح پر ایم ایم اے میں تنظیم سازی ہوگی۔(3)اسلام آباد میںورکرز کنونشن کیا منعقد کیا جائے گا۔ (4)ہم ملک میں نئی طرزکی سیاست کاآغازکرناچاہتے ہیں۔ (5)کوشش کریں گے کہ قوم کی امیدوں پرپورااتریں۔آج ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ایک نظریئے اورنصب العین کااعلان کرتے ہیں کیوں کہ قومی سطح پرایسے اتحاد کی ضرورت تھی،متحدہ مجلس عمل کی تمام جماعتیں صف آرا اورمتحد ہیں۔(6) آئندہ انتخاب ایم ایم اے کے پرچم تلے لڑیں گے۔(7) اس وقت عراق، شام، لیبیا اور افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے اور متحدہ مجلس عمل مسلم امہ کی آواز بنے گی۔(8) سودی معیشت نے پورے معاشی نظام کو جکڑ لیا ہے ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ملک کے نظام کو بہتر کرکے قوم کی امیدوں پر پورا اتریں۔(8) ملک میں بے چینی اوراضطراب ہے،ملک میں قیام امن کی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے،ایسی حکمت عملی بنائیں گے کہ ہر شخص وطن سے پیار کرے۔(9) سیاست پر ظالم و جابر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے لیکن ہم ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے عام پاکستانیوں کے لیے ایوان کے دروازے کھلیں گے۔(10) متحدہ مجلس عمل عام پاکستانی کی ترجمانی کرے گی اور مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست ہمارے لیے نمونہ ہو گی۔واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور، 2002 میں بنائی گئی متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختونخوا میں 2002 سے 2007 تک حکومت کی تھی، بعدازاں اندرونی اختلافات کی بدولت اس کی مقبولیت ختم ہوگئی تھی۔اس طرح 2008 اور 2013 کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار عوام کی واضح حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔لیکن اب مدھم امید کی جاسکتی ہے کہ ایم ایم اے اتحاد کے پی اور بلوچستان کے بڑوں بڑوں کو لتاڑے گا اور سیاسی قومی دھارے میں ایک کلیدی رول ادا کرے گا۔