ماہرِ تعلیم اور نصاب ساز ڈاکٹر علی محمد خاں

ڈاکٹر علی محمد خاں 1941ءمیں پانی پت میں پیداہوئے۔1961ءتدریس سے وابستہ ہیں ۔گورنمنٹ وحدت کالج لاہور میں پچیس برس پڑھانے کے بعد گذشتہ دس برس سے ایف سی کالج لاہور میں پڑھارہے ہیں ۔پنجاب ٹیکسٹ بک بور ڈ کی نہم اور دہم کی اُردو کی کتاب بہارِ اُردواور گیارہویں و بارہویں کی اُردو کتب کا نصاب ڈاکٹر علی محمد خان ترتیب دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ نصاب ترتیب دینا ایک چیلنج ہے،اسے ایک فرد بھی ترتیب نہیں دے سکتا۔محکمہ تعلیم اسلام آباد کے پلیٹ فارم پر نصاب سازی کا ایک ونگ ہے۔وہاں نصاب ترتیب دیا جاتا ہے ۔چاروں صوبوں کے جغادری قسم کے لوگ نصاب سازی میں شامل ہوتے ہیں۔وہ ہر مضمون کا نصاب تیار کرکے پھر آگے ہمیں دے دیتے ہیں ۔پھر اُن کے دیے گئے نصاب کی روشنی میں ہم نصاب ترتیب دیتے ہیں۔ہم اُنہی نثر نگاروں ،شاعروں کو نصاب کا حصہ بناتے ہیں جو ہمیں بتائے گئے ہوتے ہیں ،اپنی مرضی سے ہم کسی کو نصاب کا حصہ نہیں بنا سکتے۔معاملہ یہاں تک ہی نہیں بلکہ یہ بھی بتادیا جاتا ہے کہ فلاں کا فلاں مضمون شامل کرنا ہے ۔نہم کی کتاب میں مولوی عبدالحق کا ایک لکھا ہوا”نام دیو مالی“کا خاکہ ہے۔ہمیں ہدایت دی گئی کہ اسے ہر صورت نصاب میں شامل کرنا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہدایت ہوتی ہے کہ دوافسانے شامل کرنے ہیں ،دوناول کے اقتباس اور باقی فلاں فلاں چیزیں۔دسویں جماعت کی کتاب بہاراُردو جو دس سال نصاب کا حصہ رہی ،گذشتہ برس اُس کی جگہ نئی کتاب شامل کی گئی ،اُس کو جب ہم ترتیب دینے لگے،تو شبلی نعمانی کو ہر صورت نمائندگی دینی تھی۔میرے ساتھ ڈاکٹر تحسین فراقی اور جعفر بلوچ تھے،مَیں نے دونوں سے گزارش کی کہ شبلی نعمانی کا اہم کام سیرت کا ہے۔یوں کرتے ہیں ،سیرت رسول ﷺسے ایک اقتباس شامل کردیتے ہیں ۔لیکن دونو ں عالم فاضل دوستوں نے کہا کہ شبلی نعمانی کی کتاب ”الفاروق“بہت زبردست کتاب ہے ،اس کے پچاس ایڈیشن چھپ چکے ہیں تو اس کے کچھ حصہ کو نصاب میں شامل کرتے ہیں۔مَیں نے دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمارے ہاں تعصبات بے حد پائے جاتے ہیں کہیں کوئی مسئلہ ہی نہ کھڑاکردے۔لیکن وہ بہ ضد رہے۔یوں الفاروق سے ایک سبق شامل کردیا ،جس کا ایک جملہ یہ تھا کہ ”حضرت عمر فاروق ؓراتوں کو بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں یہ دیکھا کرتے تھے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سوگیا،تاہم ایک رات گشت کررہے تھے کہ کسی کے گانے کی آواز کانوں میں پڑی تو ،آپ ؓکو اُس کی آواز اچھی لگی اور سننا شروع کردیا“مَیں نے دوستوں کو کہا بھی کہ یہ واقعہ حذف کردیتے ہیں ،لیکن دونوں نے دلیل دی کہ جناب یہ تو بہت اچھا واقعہ ہے۔جب کتاب چھپی تو تنازع اُٹھ کھڑا ہوا۔سمعیہ راحیل قاضی نے پریس کانفرنس کردی۔چالیس کے قریب درخواستیں تھانوں میں درج ہوگئیں ۔اعتراض لگایا گیا کہ کتاب ترتیب دینے والے مرتد ہیں ،انہیں اسلام کا کچھ پتہ نہیں ،نیز اس پیراگراف سے یہ پہلو نکلتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓکو موسیقی پسند تھی ،وغیرہ۔یہ بات چوہدری پرویز الہٰی اور چوہدری شجاعت تک پہنچ گئی ۔اُنہوں نے کہا کہ اس کتاب کو ختم کیا جائے اور ازسرِ نو نصاب ترتیب دیا جائے،حالانکہ اُس وقت انیس لاکھ کتابیں پرنٹ ہوچکی تھیں۔بات یہاں پر ختم نہ ہوئی ،ہمارے خلاف پرچہ کاٹ دیا گیا۔میری بیوی بے چاری مسلے پر بیٹھ گئی ۔مَیں چونکہ کتاب کا مُدیر تھا تو سارامسئلہ میرے اُوپر تھا۔بات پولیس تک پہنچی ،پولیس نے کہا کہ جس نے مضمون لکھا ہے ،اُس کے خلاف پرچہ ہوگا۔یوں شبلی نعمانی کے خلاف لاہور میں پرچہ کٹ گیا۔تھانے دار نے کہا بندہ (شبلی نعمانی حاضر کرو)مَیں نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ وہ تو 1914کو وفات پاگئے تھے۔اُس نے کہا کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا گیا ،اب تو پرچہ کٹ چکا ہے ۔ہماری دانش کا یہ حال یہ ہے کہ پولیس نے شبلی نعمانی کے خلاف پرچہ کاٹ دیا۔آخرکار مسئلہ ختم ہوا اور ہمیں وہ مضمون تبدیل کرنا پڑا ،اُ س کی جگہ دوسرا مضمون شامل کیا۔