ممتاز ناول نگار و کہانی نویس مرزا اطہر بیگ

مرزا اطہر بیگ سے میرا اولین تعارف فلسفہ کے استاد کی حیثیت سے ہوا۔ گورنمنٹ کالج جب یونیورسٹی نہیں بنا تھا، تو ایم اے فلسفہ میں آپ شعبہ کے سب سے پسندیدہ اور ہر دلعزیز استاد تھے۔ طلبا اکثر انھیں گھیرے رہتے۔ تب کالج میں سگریٹ پینے پر پابندی کا کوئی تصور نہیں تھا تو آپ باہر لان میں گھومتے ہوئے جب کہ دیگر سگریٹ نوش طلبا سے گفتگو کی مصروفیت بھی جاری رہتی، سگریٹ پیتے دکھائی دیتے۔ وہیں لان میں کبھی کلاس بھی لیتے۔ ہمیں آپ نے نفسیات اور جدید فلسفہ پڑھایا۔
تبھی معلوم ہوا کہ آپ ڈرامہ نگار ہیں اور ٹی وی پر کئی اعلیٰ درجہ کے سیریل لکھ چکے ہیں۔ جن میں نشیب اور حصار جیسے یادگار ٹی وی ڈرامے بھی شامل ہیں۔ سویرا کے شماروں میں ہم استاد اور شاگرد دونوں کی کہانیاں ایک ساتھ شائع ہوئیں۔ تو انھی دنوں پتہ چلا کہ آپ ایک ناول پر کام کر رہے ہیں یا ایسا ارادہ کیے ہوئے ہیں۔ یہ بات ہے نوے کی دہائی کے آغاز کی۔
یہ ناول غلام باغ کے نام سے 2006میں شائع ہوا۔ اس نے اردو ادب کے منظرنامے میں اپنی اشاعت کے فوراً بعد ایک کھلبلی پیدا کی۔ جہاں اس کی مخالفت میں بیانات سامنے آئے، تو اس سے کہیں زیادہ اس کے پڑھنے والوں نے اسے مقبولیت اور قدرومنزلت کے اعلی درجے پر جگہ دی۔ عام قارئین بلکہ ناقدین فن سے بھی اس ناول نے داد و تحسین حاصل کی۔ پاکستان اور بھارت میں اس پر پر تنقیدی مقالے لکھے گئے۔ اسے دور جدید کا اولین اردو ناول قرار دیا گیا۔ آج یہ ناول اردو کے چند غیر معمولی حیثیت کے حامل ناولوں کی فہرست میں جگہ پا چکا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک مرزا اطہر بیگ کے افسانوں کا ایک مجموعہ ’بے افسانہ‘ اور دو مزید ناول ’صفر سے ایک تک‘ اور ’حسن کی صورت حال‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔
اس سے کوئی انکار نہیں ہے کہ آپ نے اردو ناول میں زبان اور اسلوب کی سطح پر جو تجربات کیے ہیں، اور جس انفرادیت کے ساتھ کیے ہیں، ان کی مثال اردو ادب میں خاص کر ناول نگاری کے شعبے میں نہیں ملتی۔ کہاجاتا ہے کہ آپ وہ ناول لکھ رہے ہیں جو آئندہ اردو میں لکھا جائے گا۔ یہ بات وہ خود زور دے کر کہتے ہیں کہ روایتی ناول کا زمانہ لد چکا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول اردو کی ناول کی روایت میں اگلے مرحلے کا اشاریہ ہیں۔ یہ ہمیں آنے والے موسموں کی خبر دیتے ہیں۔ آپ کی ناول نگاری اردو میں ناول کی روایت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت کرچکی ہے، اور کچھ بعید نہیں ہے کہ مستقبل کے نقاد کو اردو ادب کی ناول کی تاریخ کو مرزا اطہر بیگ ’سے پہلے اور ان سے بعد ‘ جیسے مدارج میں تقسیم کرنا پڑے۔