*وزیراعظم کا کمال*

 

تحریر۔ غلام مصطفی ملک

 

 

وزیر اعظم بننا اس کا خواب نہیں تھا ، بس وہ ظلم، زیادتی ، جبر اور ناانصافی کے نظام کو شکست دینا چاہتا تھا ،
وہ فطری طور پر جنگجو تھا ، ظالم سے لڑنا اور ظلم کے راستے میں رکاوٹ بننا ہمیشہ سے اس خواب تھا ،
وہ جبر کے خلاف اوائل جوانی میں باقاعدہ ہتھیار اٹھا چکا تھا ، اور مسلح جدوجہد میں شریک رہا تھا ، اس نے سیاست میں آتے ہی لینڈ مافیا کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ان سے ناجائز قبضے واگزار کرا لیے ، بندوق کے ساتھ علم بھی اسکا ہتھیار تھا ، اور اس نے تعلیمی سفر برطانیہ سے نہ صرف مکمل کیا بلکہ اپنے وطن میں باقاعدہ انسٹیٹوٹ فار پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز سے ڈاکٹریٹ یعنی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔

بس قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور وہ 2018 میں وہ وزیراعظم بن گیا ، اس کے مخالفین چاہے جتنی مخالفت کر لیں مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ 90 روز میں تو نہیں مگر ایک سو اسی 180 روز میں اس نے اپنا ملک اور ملک کی معیشت کو بدل کے رکھ دیا ، ملک سے انارکی کا خاتمہ کر دیا اور دشمن پڑوسی ممالک سے دہائیوں سے جاری لڑائیوں کو روک دیا اور جنگ سے تباہ ملکوں میں وہ ثالث بن گیا ، اس کی معاشی اصلاحات سے ملک میں ایک نئے اقتصادی دور کا آغاز ہوا اور اسکے جاندار اقدامات سے ملک میں جاری سیاسی رشہ کشی کا نہ صرف خاتمہ ہوا بلکہ پائیدار ترقی کے سفر کا بھی آغاز ہوا ۔

وزیراعظم کی تعریف پر کسی کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ، میں حکمرانوں کی خوشامد کا قائل نہیں ،کیونکہ انہیں اپنی خوشامد کے لیے اپنے مصاحب ہی کافی ہوتے ہیں ، البتہ حکمران سیاسی اور نظریاتی مخالف ہی کیوں نہ ہوں انکے اچھے کاموں کی دل کھول کر تعریف کرتا ہوں اور اگر اپنا ہی نالائق اور اس کا قبلہ درست نہ ہو تو اس کا برملا اظہار اور تنقید کرتا ہوں ، کسی اچھے کو اچھا کہنا اور برے کو برا جاننا ہہرحال میرا ذاتی استحقاق ہے میرے دوست جانتے ہیں کہ پاور کوریڈورز کا حصہ اور عینی شاہد ہونے کے باوجود انہی بری عادتوں کی وجہ سے ہمیشہ اپنوں اور پرایوں کا معتوب رہا ۔

تو بات کر رہا تھا جناب وزیراعظم کے زبردست اقدامات کی ، جن کی ایک ایک کامیابی دنیائے عالم کو متاثر کرتی رہی ، لوگوں کے دلوں میں انکی محبت بڑھاتی رہی ، ان کے تیزرفتار معاشی اصلاحات ، بروقت اقدامات اور امن کے لیے گراں قدر خدمات نے بل آخر انیں ایک عالمی لیڈر کے طور پر متعارف کرا دیا ہے
۔
مزید تذکرے سے قبل واضع کرتا چلوں یہ نہ تو ہوائی قصہ ہے نہ کوئی فرضی کہانی ، آپ مانیں یہ نا مانیں ، یہ انقلاب واقع ہو چکا ہے بس افسوس اور ملامت یہ ہے کہ یہ سب کمال ہمارے ہینڈ سم اور کمال کی انگلش بولنے والے ، نیک ، ایماندار عقل قل کے مالک ، تبدیلی کے دعوے دار ، ایک کھیل کے ورلڈ کپ کے فاتح کپتان نے نہیں کیا بلکہ یہ کمال حضرت نجاشی ؓ کے ملک حبشہ کے باسی ابی احمد نے کر دکھایا اور اپنے اقدامات پر دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام بھی لے اڑا ۔

8 کروڑ کی آبادی اور گیارہ لاکھ سے زائد مربع میل رقبے پر پھیلا افریقہ کے ایک جنگ زدہ اور مفلوق الحال ملک " ایتھوپیا " اس حوالے سے بہت خوش قسمت ٹھرا کہ اس کا حکمران کسی ٹرافی کا فاتح تو نہیں تھا مگر اس نے 6 ماہ میں ہی اسے اندھیروں سے نکال کر اقوام عالم کی امتیازی حثیت میں لا کھڑا کیا ۔

ہمارے وزیراعظم کے زبانی جمع خرچی اور بے مثال تقریروں کے برعکس ابی احمد کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ،وہ 15 اگست 1976ء کو ایتھیوپیا کے علاقے اورومیا کے نواحی گاوں بشیشیا میں پیدا ہوئےان کے والد احمد علی مسلمان تھےجنہوں نے چار شادیاں کیں ، جبکہ والدہ راسخ العقیدہ عیسائی تھیں ، ابی اپنے کثیر الزواج والد کی 13ویں اولاد ہیں اور ماں جائی بھائی بہنوں میں چھٹے اور سب سے چھوٹے ہیں
ابی نے 2001ء میں مائیکرولنک انفارمیشن ٹیکنالوجی کالج، عدیس ابابا سے کمپیوٹر انجینرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ 2011ء میں یونیورسٹی آف گرینچ، لندن سے ٹرانسفارمیشنل لیڈرشپ میں ماسٹر کیا جبکہ 2013ء میں لیڈسٹار کالج آف مینیجمینٹ سے MBA کیا، 2017ء میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹری کی ڈگری کے حقدار ٹہرے ۔
ابی نے نوجوانی کے زمانے میں الدرغوی حکومت کے خلاف مسلح جد و جہد بھی کی تھی۔ پھر جب الدرغوی دور کا خاتمہ ہو گیا تو انھوں نے مغربی واللاغا میں آصفہ بریگیڈ میں باقاعدہ فوجی تربیت حاصل کی اور ترقی کرتے ہوئے لیفٹینینٹ کرنل بن گئے جہاں وہ انٹیلیجینس سروس میں خدمات انجام دیتے رہے ، 1995 میں انھوں نے اقوام متحدہ کی امن فوج میں روانڈا میں خدمات سرانجام دی تھیں۔یاد رہے کہ روانڈا میں 1994 میں تاریخ کی بدترین نسل کشی کی گئی تھی جب صرف 100 دنوں میں آٹھ لاکھ افراد قتل ہوئے تھے۔
1998سے لے کر 2000 تک کے ایریٹیریا سے سرحدی تنازعے کے دوران انھوں نے ایریٹیریا کے ان علاقوں میں جاسوسی مشن کی قیادت کی جو اس وقت دشمن فوج کے زیرِ قبضہ تھے۔

ابی احمد نے 2010 میں سیاست میں قدم رکھا اور وہ أورومو پیپلز ڈیموکریٹک آرگنائیزیشن کے رکن بن گئے۔ انہوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور ممبر اسمبلی بن گئے
جب وہ پارلیمان کے رکن تھے تو اسی دوران ایتھوپیا کے جیما زون میں مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات کا آغاز ہوا۔ انھوں نے اس تنازعے کے پائیدار حل کے لیے ایک فورم بنایا جسے ’امن کے لیے مذہبی فورم‘ کا نام دیا گیا تھا، انہوں نے اس تنازع کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔
ابی احمد نے 2015 میں عدیس ابابا اور اپنے زون میں لینڈ مافیا کے خلاف جہاد شروع کر دیا ایک طویل سیاسی اور جمہوری جدوجہد کے بعد وہ ناجائز قابضین سے املاک چھڑانے میں کامیاب ہو گئے اس جنگ کی کامیابی نے انہیں ملک کے صف اول کے سیاستدانوں میں لا کھڑا کیا ۔ وہ ایک سال کے لیے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے منسٹر بھی بنے اور اپریل 2018 میں چار جماعتی اتحاد کی قیادت کرتے وہ ایتھوپیا کے وزیراعظم بن گئے ۔

اب یہاں سے انکا دلچسپ کیریر شروع ہوتا ہے ،ابی نے نفرت پر مبنی تقریروں ، عالمی فورمز پر اپنے ملک میں کرپشن کے قصے سنانے ، 90 روز میں انقلاب لانے کے سہانے سپنوں ، ایک کروڑ نوکریوں کے جھوٹے خواب دکھانے کے برعکس اپنی ترجیحات طے کیں ، ملک میں امن کو یقینی بنایا ، سیاسی مخالفین کو جیلوں سے رہا کیا ، ریاستی مظالم پر معافی مانگی ، ملک بدر کیے گئے اور سابق حکمرانوں کی جانب سے"دہشت گرد" قرار دیے گئے مسلح گروپوں کو واپس خوش آمدید کہا ، سیاسی فضا کو خوشگوار بنایا ، زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والے معاشی اصلاحات لے کر آئے ، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا ، بیرونی سرمایہ کاری کو راستہ دیا ، جس سے ہچکولے کھاتی اور ڈوبتی معیشت کو استحکام ملا

ابی احمد کی اصلاحات سے نہ صرف شہریوں میں بہتر زندگی اور مستقبل کی امید روشن ہوئی،بلکہ۔ہم کہہ سکتے ہیں انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے پہلے 100دن ایمرجنسی ہٹانے ، ہزاروں سیاسی قیدیوں کو ریلیف دینے، میڈیا سینسر شپ ختم کرنے، پابندی کا شکار اپوزیشن گروپوں کو قانونی حیثیت دینے، کرپشن میں ملوث فوجی اور سیاسی رہنماؤں کو ہٹانے اور ایتھوپیا کی سیاسی اور سماجی زندگی میں خواتین کے کردار میں اضافے پر پر صرف کیے اور اس میں کامیاب بھی رہے۔

ابی احمد نے صرف ملک میں اصلاحات ہی نہی کیں بلکہ ایتھوپیائی عوام کو ذہنی طور پر پرسکون اور محفوظ بنانے کے لیے پڑوسی ممالک سے مثالی تعلقات کے لیے گرم جوش اقدمات بھی اٹھائے ، دیرینہ دشمن سمجھے جانے والے پڑوسی ملک اریٹیریا کے ساتھ امن قائم کیا ، اپنی حکمرانی کے پانچویں ماہ یعنی ستمبر 2018 میں اریٹیریا معاہدے پر دستخط کیےسوڈان کے سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے بطور ثالث سب سے اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے جنوبی سوڈان کے امن معاہدے کو بحال کرنے کی بھی کوشش کی۔

یاد رکھیے ، دنیا آپ کے زبانی جمع خرچی کو نہیں مانتی ، آپ کے سیاسی قد کاٹھ کو نہیں دیکھتی ، آپ کے خالی فلسفوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی ، سابقین کو الزام دینے سے آپ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہیں ہو جاتے ، آپ کو حکومت میں آکر اپنی ٹون تبدیل ، اپنا لہجہ بدلنا اور ڈیلیور کرنا پڑتا ہے ،جیسے ایک غریب اور مفلوک الحال ملک کے وزیراعظم ابی احمد نے کیا ، دنیا نے انکی کاوشوں کو سراہا اور رواں سال کا امن نوبل انعام بھی انکے نام کر دیا ۔

میرے لیے سب سے دلچسپ نوبل پیس پرائز کی چیئر پرسن بریٹ انئس اینڈرسن کے خطاب کے وہ دو فقرے ہیں جو انہوں نے امن نعام کے لیے خوش نصیب انسان کے نام کا اعلان کرتے ہوئے کیا ، انہوں نے کہا آبے احمد نے ایریٹیریا کے صدر اسياس أفورقی سے ہاتھ ملاتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان خلفشار اور خانہ جنگی کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور ملک کو جمہوریت، خوشحالی اور امن کی راہ پر گامزن کیا
واضح رہے کہ نوبل کے امن انعام کی رقم ’90 لاکھ سویڈیشن کورونا ہے جو 9لاکھ ڈالر امریکی ڈالر کے مساوی ہےجو آبے احمد کو 10 دسمبر کو اوسلو میں پیش کیا جائے گا۔

ابی احمد اس وقت براعظم افریقہ میں کسی بھی ملک کے سب سے کم عمر سربراہ حکومت ہیں۔کم عمری کے باوجود ابی نے دنیا کو ثابت کیا ہے کہ اگر آپ کوئی کام کرنا چاہیں تو آپ کو سالوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ آپ چند ہفتوں میں انقلابی اقدامات کر سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ عوام بے صبرے ہیں وہ تیرہ ماہ میں تبدیلی چاہتے ہیں ، ان سے نہایت ادب کے ساتھ اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ اگر سلیقہ ،، طریقہ ، تجربہ ، نیک نیتی اور ڈیلیور کرنے کی آرزو ہو تو تیرہ نہیں تین ماہ ہی کافی ہوتے ہیں ، اگر انہیں کچھ کرنا نہیں آتا تو وہ اپنے سے 20 سال کم عمر ابی احمد سے ہی سیکھ لیں ۔
# غلام_مصطفیٰ_ملک
١۵ اکتوبر ٢٠١٩